(1) سب سے اچھا آدمی: حضرت عثمان ؓ روایت کرتے ہیںکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :تم میں بہترین لوگ وہ ہیں جو قرآن کا علم سیکھیں اور لوگوں کو اُسے سکھائیں۔(بخاری)حضرت سعد بن عبادہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا: جو آدمی قرآن کریم پڑھ کر بھول جائے وہ قیامت کے دن رب کریم سے حالت جذام(سفید داغ کی بیماری) میں ملے گا۔ (ابوداؤد، دارمی)
انسانوں کو دنیا میں زندگی کس طرح گزارنی ہے اسے بتانے اور سمجھانے کے لئے اللہ نے اپنا کلام نازل کیا اور آخری نبیﷺ کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ دنیا والوں کو اسے پڑھائیں سمجھائیں اور اس پر عمل کرائیں۔ نبیﷺ نے یہ کام کر کے ایک قرآنی معاشرہ قائم کیا اوراللہ کی زمین اور اس پر بسنے والے امن و امان، خوشحالی ، ترقی اور خیر و برکت سے مالامال ہو گئے۔لیکن پھر شیطان اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا اور اُس نے بعد کی آبادیوں کو قرآن سے دور کر دیا۔اللہ کے نیک بندے بتاتے اور سمجھاتے رہے کہ انسان کی سب سے بڑی بد نصیبی اور بربادی یہ ہے کہ وہ اللہ کے کلام سے دور اور محروم ہو جائے، لیکن شیطان کی پیروی کرنے والوں نے نہیں مانا اور اپنی دنیا اور آخرت دونوں برباد کر لی۔نبیﷺ نے بشارت سنائی کہ قیامت تک جو لوگ قرآن کا علم سیکھتے رہیں گے اور سکھاتے رہیں گے اللہ کی نگاہ میں سب سے اچھے وہی لوگ ہوں گے۔

قرآن پڑ ھ کے سمجھ کے بھی اُس پر عمل نہیں کرنا اور دوسروں تک اُس کو نہیں پہنچانا اور اس فرض کو بھول جانا اتنا سنگین گناہ ہے کہ ایسا آدمی قیامت میں سفید داغ ولا بنا کر اٹھایا جائے گا۔پرانے زما نے میں سفید داغ کو چھوت کی بیماری سمجھاجاتا تھا اورلوگ ایسے آدمی سے دور رہنا پسند کرتے تھے ۔ یعنی وہ اچھوت بن جاتا تھا۔جب وقت بدلا تب لوگوں نے جانا کہ یہ چھوت کی بیماری نہیں ہے۔لیکن یہ ایسی خراب بیماری ہے جو انسان کو بد شکل اور بدصورت بنادیتی ہے۔سفید داغ والے لڑکے اور لڑکی کی شادی آسانی سے نہیں ہوتی ہے۔ہندو دھرم والوں کا عقیدہ ہے کہ اگر چھٹ کا پرب کرنے میں کوئی پاپ ہو گیا تو چھٹ مائی ایسے پاپی کو سفید داغ کی بیماری میں ڈال دے گی۔لیکن اس وقت تو حال یہ ہے کہ قرآن حفظ کرنے کے نام پر پورا قرآن یاد کرلینے والا جانتا ہی نہیںکہ وہ کیا پڑھ رہا ہے اور کیا سنا رہا ہے۔کوئی آمی قرآن کو پڑھے اور جانے ہی نہیںتو وہ گنہگار ہے لیکن اُس سے بڑا گنہگار وہ ہے جو قرآن کو رٹ کر سناتا رہے اورنہ قرآن کے احکام کو جانتا ہو، نہ اُن پرعمل کرتا ہو اور نہ اُسے دوسروں کو بتاتا ہو۔ لیکن موجودہ بے علم جاہلوں کا مذہبی سماج طوطے کی طرح قرآن رٹ لینے کو سمجھتا ہے کہ اُس کو قیامت میں نور کا تاج پہنایا جائے گا۔جبکہ نبی ﷺ فرمار ہے ہیں کہ وہ سفید داغ کی بیماری میں مبتلا کر کے زندہ کیا جائے گا۔آ پ پیارے نبیﷺ کی بات کا یقین کریں گے یا موجودہ جاہل مولوی کے کہنے پر چلیں گے ؟
(2) سب سے اچھی کمائی کرنے والا: رسول اللہ ﷺسے پوچھا گیا،اے اللہ کے رسول ﷺ سب سے اچھی کمائی کون سی ہے ؟ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:آدمی کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا،اور وہ تجارت جس میں تاجر بے ایمانی اور جھوٹ سے کام نہ لے(مشکوٰۃ )
دنیا میں زندگی گزارنے کے لئے پیسہ کمانا ضروری ہے۔ شریعت نے حلال روزی کمانے کو فرض قرار دیا ہے۔جمعہ کے دن آدمی اپنا کام چھوڑ کر نماز پڑھنے آتا ہے۔حکم دیا گیا کہ جیسے ہی جمعہ کی فرض نماز ادا ہو جائے فوراً مسجد سے نکل جاؤ اور روزی کی تلاش میں لگ جاؤ۔لیکن نکمے ناکارے لوگ اس فرض پر عمل کرنے کی جگہ نفل نمازیں پڑھ کر اللہ کے حکم کی نافرمانی کرتے رہتے ہیں۔حلال روزی محنت و مشقت کے بعد ملتی ہے۔حرام روزی آسانی سے مل جاتی ہے۔جو آدمی کوئی ہنر جانتا ہے وہ اپنے ہنر سے حلال روزی کمائے گا اور جو بے ہنر ہے وہ دولت مند بننے کے لئے غلط طریقے سے حرام روزی کمانے میں لگ جائے گا۔حرام کمانے والے کی کوئی نیکی،صدقہ، عبادت اور دعا اللہ قبول نہیں کرتا ہے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :اللہ تعالیٰ پاک ہے اور وہ صرف پاکیزہ مال کو ہی قبول کرتا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو یہی حکم دیا ہے، جس کا اُس نے رسولوں کو حکم دیا ہے۔چنانچہ اُس نے فرمایا: اے پیغمبرو! پاکیزہ روزی کھاؤ اور نیک عمل کرو۔ اور مومنوں کو خطاب کرتے ہوئے اُس نے کہا کہ اے اہل ایمان جو پاک اور حلال چیزیں ہم نے تم کو بخشی ہیں وہ کھاؤ۔پھر ایک ایسے آدمی کا حضور ﷺ نے ذکر کیا جو لمبی دوری طے کر کے مقدس مقام(خانہ کعبہ) پر آتا ہے، غبار سے اٹا ہوا ہے، گرد آلود ہے اور اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف پھیلا کرکہتا ہے اے میرے رب! اے میرے رب!(اور دعائیں مانگتا ہے) حالانکہ اُس کا کھانا حرام ہے ، اُس کا پانی حرام ہے، اُس کا لباس حرام ہے اور حرام پر ہی وہ پلا ہے تو ایسے شخص کی دعا کیوں کر قبول ہوسکتی ہے۔( مسلم )
(3) سب سے اچھا گھر: نبی ﷺنے فرمایا ہے کہ مسلم معاشرے کا سب سے اچھا گھر وہ ہے جہاں کوئی یتیم ہو اور اُس کے ساتھ حسن سلوک کیا جار ہا ہواورمسلم گھرانے کا بدترین گھر وہ ہے جہاں کوئی یتیم ہو اور اُس کے ساتھ بد سلوکی کی جا رہی ہو۔(ابن ماجہ)
یتیم اُس نابالغ بچے کو کہتے ہیں جو باپ سے محروم ہو چکا ہو۔جس کی آنے والی زندگی کی کامیابی اور خوشیوں کا دارومدار ایک اچھے با پ پر تھا۔جس کا باپ ہی نہیں رہا اُس یتیم کی دنیا اندھیری ہو گئی۔اللہ تعالیٰ اُس یتیم کے قریبی اور دور کے رشتے داروں کو یتیم کی سرپرستی کی آزمائش میں ڈال کر اُن کے ایمان کا امتحان لیتا ہے۔جس خاندان نے اپنے گھر کے یتیم کو یتیمی کا احسا س نہیں ہونے دیا ،وہ خاندان اور گھر اللہ کے نزدیک سب سے اچھا گھر ہے۔اُس خاندان پر ، گھر پر اور گھر کے ہر فرد پر اللہ کی رحمتوں کا سایہ رہتا ہے۔اور جہاں ایسا نہیں ہوتا وہ گھر اللہ کے نزدیک سب سے خراب گھر ہوتا ہے اور وہ گھر آفتوں، بلاؤں اور بیماریوں کی پناہ گاہ بن جاتا ہے۔سہلؓ بن سعد کہتے ہیں،رسول اللہﷺ نے فرمایا:میں اور یتیم کا سرپرست نیز دوسرے بے سہارا لوگوں کا سرپرست جنت میں پاس پاس رہیںگے۔ یہ کہہ کرنبیﷺ نے بیچ کی انگلی اور شہادت کی انگلی لوگوں کو دکھا کر بتایا کہ میں اور یہ سرپرست جنت میں اتنے قریب رہیں گے ۔ دونوں انگلیوں کے بیچ میں ذرا سا فاصلہ رکھا۔(بخاری)
(4) سب سے اچھا رشتہ دار: ایک آدمی نے رسول اللہﷺ سے کہا ،میرے کچھ رشتہ دار ایسے ہیں کہ میں اُن کے ساتھ نیکی کرتا ہوں، لیکن وہ میرے ساتھ برائی کرتے ہیں، میں اُن کے ساتھ درگزر کا رویہ اپناتا ہوں لیکن وہ گنوارپن دکھاتے ہیں۔ نبیﷺنے فرمایا:اگر تو ایسا ہے جیساتو کہہ رہا ہے تو اُن کے چہرے پر تو راکھ مل رہا ہے۔اللہ کی طرف سے تیرے لئے ایک مددگار مقرر ہوگا جو اُن کی شرارتوںسے تیری حفاظت کرتا رہے گا۔(مسلم)
اللہ اور ماں باپ کے بعد انسان پر سب سے زیادہ حق اُس کے رشتہ داروں کا ہوتا ہے۔جو آدمی اللہ اور والدین کے حق کے ساتھ رشتہ داروں کا حق بھی ادا کرتا رہتا ہے وہ اللہ کا محبوب بن جاتا ہے اور اللہ اُس نیک انسان کی حفاظت کے لئے ایک فرشتہ مقرر کر دیتا ہے۔لیکن جو بدنصیب اپنے غریب رشتہ داروں سے منہ موڑ لیتا ہے اُس کے ساتھ ٹھیک اس کاا لٹا ہوتا ہے۔رسول اللہ ﷺنے فرمایا: رشتہ داری کو کاٹنے کے سوا کوئی گناہ ایسا نہیں ہے جس کے کرنے والے کو اللہ تعالیٰ دنیا میں جلد سزا دے دیتا ہے اور آخرت میں بھی اس کی سزا باقی رہتی ہے۔(ابن ماجہ)
(5) سب سے اچھا پڑوسی: حضرت ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں : رسول اللہﷺ نے فرمایا :خدا کی قسم وہ مومن نہیں خدا کی قسم وہ مومن نہیں خدا کی قسم وہ مومن نہیں پوچھا گیا کون یا رسول اللہ ؟ آپ نے فرمایا وہ جس کی شرارتوں سے اُس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو ۔(بخاری و مسلم )
رشتہ دارں کے بعد انسان پر پڑوسی کا حق سب سے زیادہ ہوتا ہے۔جو آدمی اپنے پڑوسیوں سے اچھے مراسم اور تعلقات رکھتا ہے اُس کے متعلق پڑوسی گواہی دیتے ہیں کہ وہ اچھا آدمی ہے۔ شادی بیاہ کے موقع پر جب لوگ انکوائری کرنے آتے ہیں تو وہ کہتا ہے کہ لڑکی والا یا لڑکے والا بہت اچھا آدمی ہے۔ لیکن جس کے تعلقات اپنے پڑوسیوں سے اچھے نہیں ہوتے ہیں اُس کے پڑوسی بتاتے ہیں کہ اس خاندان والوں کی نماز او ر داڑھی سے دھوکہ مت کھائیے۔ یہ نہایت بد اخلاق اور بیہودہ لوگ ہیں۔اور یہ خاندان دنیا میں بدنام ہو کر رہ جاتا ہے۔
(6) سب سے اچھا صدقہ: حضرت سراقہ بن مالک ؓ روایت کرتے ہیں : نبیﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں بہترین صدقہ نہ بتاؤں ! تمہاری وہ بیٹی جو تمہاری طرف لوٹا دی گئی اور تمہارے سوا اُس کے لئے کوئی کمانے والا نہ ہو۔ (ابن ماجہ)
بیٹی کی شادی شریعت میں ایک ایسا آسان کام ہے جیسے بازار سے کپڑا خریدا اور سلوا کر پہن لیا۔لیکن موجودہ شیطانی دنیا اور شیطانی سماج نے اس کواتنا مشکل اورسنگین مسئلہ بنادیا ہے کہ مت پوچھئے۔بیٹی کی شادی کرنا پہاڑ توڑ کر راستہ بنانے جیسا ہو گیا ہے۔ جب اتنی مشکلوں کے بعد لڑکی بیاہ کر سسرال بھیجی جاتی ہے تو گھر والے سمجھتے ہیں کہ ایک بلا ٹلی۔مگر وہ بلا کسی وجہ سے اگر لوٹ کر گھر آگئی تو گھر والوں کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں۔پھرلڑکی کے سسرال والوں پر جھوٹا مقدمہ کیاجاتا ہے اور ہمیشہ کے لئے لڑی کا مستقبل اندھیرا بنا دیا جاتا ہے۔یعنی شیطان ہر طرح سے گھر کو برباد کر دیتا ہے۔نیک لوگ صدقہ کرنے کو بڑی نیکی سمجھتے ہیں اور اس کے ذریعہ اللہ کی رحمت کوبلاتے رہتے ہیں۔نبیﷺ فرما رہے ہیں کہ جس کو صدقہ دینے کا شوق اور جذبہ ہو اُسے معلوم ہو نا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے بیٹی کو گھرا لوٹا کر اُس کو سب سے اچھا صدقہ کرنے کا موقع مہیا کر دیا۔اس پر غصہ ہو نے کی جگہ اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے۔کیا کوئی ایسا کرے گا ؟
(7) سب سے اچھی عبادت: حضرت ابو ہریرہؓ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: ضرورت مند اور محتاج لوگوں کے لئے دوڑ دھوپ کرنے والا، اُس آدمی کی طرح ہے جو اللہ کی راہ(جہاد) میں سرگرمی دکھا رہا ہے۔ (راوی کا بیان ہے)میرا خیال ہے کہ آپ نے فرمایا:ایسا آدمی اُس تہجد گزار کی طرح ہے جو نوافل کی ادائیگی سے تھکتا نہیں ہے، یا اُس روزہ دار کی طرح ہے جو روزے رکھنا نہیں چھوڑتا۔(بخاری و مسلم)
بے دین اور بے علم لوگ جب عبادت کے جنون میں مبتلا ہوتے ہیں تو نفل نمازیں، تسبیح اور وظیفے میں مشغول ہو جاتے ہیں اور اپنے اخلاق کو سنوارنے کی فکر نہیں کرتے۔نبی ﷺ فرما رہے ہیں کہ جس کو عبادت گزار بننے کا شوق ہے وہ یہ عبادت کرے جو اُس کو سب کی آنکھوں کا تارا اور اللہ کا پیارا بنا دے گی۔لیکن آج بدنصیب عبادت گزاروں کے بیچ کتنے ایسے ہیں جو اس فرمان رسولﷺ کو جانتے اور مانتے ہیں۔
(8) سب سے اچھا سردار: معقل بن یسار ؓ نے رسول اللہﷺکو یہ ارشاد فرماتے سنا:جو شخص مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کا ذمہ دار ہو اور وہ اُن کے ساتھ خیانت کرے تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام کر دے گا۔(بخاری /مسلم)سہلؓ بن سعد کہتے ہیں،رسول اللہﷺ نے فرمایا:قوم کا سردار اُن کا خادم ہو توشہید کے سوا کوئی عمل میں اُس سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ (مشکوٰۃ)
کسی قوم یا ملک کا سربراہ سردار کہاجاتا ہے۔سردار کا مطلب ایسا آدمی ہوتا ہے جس کے ماتحت تھوڑے یا زیادہ لوگ رہتے ہیں اور وہ اُس کے حکم کو ماننے کے پابند ہوتے ہیں۔سردار کا حکم ماننے والوں کی تعداد ایک ملک کی قوم کے برابر بھی ہو سکتی ہے اور ایک چار دیواری کے اندر ایک خاندان کے برابر بھی ہو سکتی ہے۔کسی بھی آدمی کو چھوٹی سرداری ملے یا بڑی سرداری، سردار بننے کا تقاضہ یہ ہے کہ جن لوگوں پر وہ سردار بنایا گیا ہے اپنی ذات سے زیادہ وہ اُن کی بھلائی چاہنے والا ہو۔اپنی جان پر تکلیف جھیل کر اوراپنی خواہشوں کی قربانی دے کر اپنے ساتھ رہنے والوںکو آرام پہنچانے اور اُن کے فائدوں کا دھیان رکھنے والا ہو۔ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیںکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:حشر کے دن سات آدمی اللہ کے سائے میںہوں گے جس دن اللہ کے سایے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا، پہلا عادل بادشاہ(جو رعایا کے درمیان عدل کے ساتھ حکومت کرتا رہا ہوگا۔(بخاری، مسلم)لیکن آج بدنصیب انسانو کی دنیا میں جس طرف جہاں بھی جس سطح کے سردار دکھائی دیتے ہیں وہ سب انتہائی خود غرض، مفاد پرست،بے ایمان،فریبی، دھوکے باز اور جھوٹے نظر آتے ہیں۔اُن کے ماتحت رہنے والے سردار کے ظلم اور زیادتی سے کراہتے رہتے ہیں لیکن اپنے سردار کے خلاف کوئی شکایت تو کیا کریںگے اور مخالفت کی آوازتو کیا اٹھائیں گے چوںتک نہیں کر سکتے ہیں۔بہت سی جگہوں میں سردار اتنا ظالم اور جفاکار ہوتا ہے کہ اپنے مخالف کو جان سے ہی مروادیتا ہے۔ایسے بدنصیب اور کمینے لوگوں کو نہیں معلوم کہ ایسا کر کے وہ شیشے کے گھر میں رہنے لگتے ہیں ۔جان کا خوف،نقصان کا اندیشہ ،ذہنی الجھن اور دل کی بے چینی اُن کا مقدر بن جاتی ہے۔صارمؔ فرماتے ہیں:
محبت کرو گے ، حکومت ملے گی
جو خدمت کیا بادشاہت ملے گی
نبی کا یہ وعدہ ، نہیں مانتے کیوں ؟
خدا مہرباں ہو گا رحمت ملے گی
ہر اک کام دنیا میں آسان ہو گا
جو روزی ملی اُس میں برکت ملے گی