کوئی انسان جب بچے کی حیثیت سے دنیا میں آتا ہے اور بالغ ہو کر دنیاکے بازار میں داخل ہوتا ہے تو پھر اُسے فیصلہ کرنا پڑتا ہے زندگی کن اصولوں کے مطابق گزاری جائے۔سماج کا جوعام چلن ہوتا ہے عام طور پر اُسی کے مطابق ہر نوجوان اپنی منزل اور اپنے راستے کا انتخاب کرتا ہے۔وہ جس گھرانے اور جس عقیدے والوں کے درمیان پیدا ہوا ہے اگر اُس کے مطابق اُس کی تعلیم و تربیت کی گئی ہے تب اُس کے سامنے دو راستے ہوتے ہیں۔ اپنے خاندانی اور گروہی رسم و رواج کے مطابق زندگی گزارے یا دنیا کے موجودہ چلن کو اپنائے۔یہاں سے جو زندگی شروع ہوتی ہے وہ اُس کی اپنی سوچ ، سمجھ اور فکر و خیال کا نتیجہ ہوتی ہے۔اوریہی وہ مرحلہ ہے جہاں سے اسلامی عقیدے کے مطابق نیکی یابرائی کی راہ پرچلنے کا ہر انسان کاخوداپنافیصلہ اور عمل ہوتا ہے اور اسی کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ اُس کے جنتی یا جہنمی ہونے کا فیصلہ قیامت میں کرے گا۔اسلام جس کی بنیاد قرآن ہے اس سلسلے میں جو قانون اورفلسفہ بتاتا اور سکھاتا ہے اُس کو نیچے کی آیتوں کے وسیلے سے سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔جو لوگ بھی خود کو مسلمان کہتے ہیں اُن کو اس کا جاننا اور سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔اگر وہ اس کو جاننے اور سمجھنے کی خواہش نہیں رکھتے اور کوشش نہیں کرتے تو کہاجاسکتا ہے وہ مسلمان بننا ہی نہیں چاہتے ہیں۔

رابطہ:8298104514
(۱) رزق تلاش کرنا فرض ہے:
اے لوگوجو ایمان لائے ہو، جب پکارا جائے نماز کے لئے جمعہ کے دن تواللہ کے ذکر کی طرف دوڑواو رخرید و فروخت چھوڑدو، یہ تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے اگر تم جانو۔(۹)پھر جب نماز پوری ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤاور اللہ کا فضل تلاش کرو او راللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہو، شاید کہ تمہیں فلاح نصیب ہو جائے۔(جمعہ:۹،۱۰)کتنے ہی جانور ہیں جو اپنا رزق اٹھائے نہیں پھرتے، اللہ اُنہیں رزق دیتا ہے اور تمہارا رازق بھی وہی دیتا ہے وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔(عنکبوت:۶۰)
حلال روزی کمانا ہر انسان پر فرض کیا گیا ہے، اس لئے کہا جارہا ہے کہ جب جمعہ کے دن نماز کے لئے بلایا جائے تو دنیا کو چھوڑ کر اور اُس سے منہ موڑ کر نماز کی طرف جلدی آ جاؤ۔اور جیسے ہی نماز ختم ہو جائے فوراً مسجد سے نکلو اور حلال روزی کمانے میں لگ جاؤ اوراللہ کو یاد بھی کرتے رہو، اللہ تمہیں فلاح یعنی دونوں جہان کی کامیابی عطا فرمائے گا۔ہر مسلمان پر حلال روزی کمانا فرض ہے جیسے نماز فرض ہے،مگر لوگ اس کو فرض سمجھتے ہی نہیں ہیں۔
دوسری آیت میں حیوانوں کی مثال دے کر سمجھایا جارہا ہے کہ وہ تمہاری طرح کھانا جمع کر کے نہیں رکھتے۔ روز کھانے کی تلاش میں نکلتے ہیں اور اللہ اُن کا پیٹ بھرنے کا انتظام کر دیتا ہے۔وہ اپنی ہر مخلوق کو روزی پہنچانے کی قدرت بھی رکھتا ہے اور اس کام کی سخت نگرانی بھی کر رہا ہے۔یعنی تم کو محنت و مشقت کے بعدجوروزی میسر آ جائے اُسے خوشی خوشی کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو۔کل کے انتظام کے لئے سرمایہ مت جمع کر و بلکہ اللہ پر بھروسہ رکھو۔
(۲) رزق کی کمی اور زیادتی:
وہی ہے جس نے تم کو زمین کا خلیفہ بنایا اور تم میں سے بعض کو بعض کے مقابلے میں زیادہ بلند درجے دئے تا کہ جو کچھ تم کو دیا ہے اُس میں تمہاری آزمائش کرے۔(انعام:۱۶۵)اللہ جس کو چاہتا ہے رزق کی فراخی بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تلا رزق دیتا ہے،یہ لوگ دنیوی زندگی میں مگن ہیں حالانکہ دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلے میںایک معمولی پونجی کے سوا کچھ نہیں۔(رعد:۲۶)اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں میں سے جس کا چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کرتا ہے،یقینا اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔(عنکبوت:۶۲) کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں کہ اللہ ہی رزق کشادہ کرتا ہے جس کاچاہتا ہے اور تنگ کرتا ہے جس کا چاہتا ہے۔یقینا اس میں بہت سی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں۔(روم:۳۷)ان کی مالداری اور ان کثرت اولاد تم کو دھوکہ میں نہ ڈالے۔اللہ نے تو ارادہ کر لیا ہے کہ اس مال و اولاد کے ذریعہ سے ان کو اسی دنیا میں سزا دے اور ان کی جانیں اس حال میں نکلیں کہ وہ کافر ہوں۔(توبہ: ۸۵)
یہاں سمجھایا جارہا ہے کہ رزق کا زیادہ کا کم ہونا یعنی خوش حال ہونا اور بد حال ہونا تمہاری عقل مندی یا تم کو کام نہیں ملنے کی وجہ سے نہیں ہے۔یہ اللہ تعالیٰ کا انتظام ہے۔دونوں حال میں تمہیں آزمایا جا رہا ہے کہ خوش حالی میں اللہ کو بھول نہ جاؤ اور بد حالی میں اللہ کی ناشکری نہ کرنے لگو۔یہ بھی کہاجارہا ہے کہ خوش حال لوگ جو اللہ کے ناشکرے ہیں اُن کی خوش حالی سے دھوکہ نہ کھاؤ۔ایسے لوگ دنیا میں بھی چین سے نہیں رہ پائیں گے اور ان کو موت کافر کی طرح آئے گی جس کا انجام جہنم کی بھڑکتی ہوئی آ گہے۔
(۳) دنیا کی رونق آزمائش ہے:
جو کچھ بھی زمین پر ہے اُسے ہم نے اُن کے لئے زینت کا سامان بنایا ہے تا کہ ہم اُنہیں آزمائیں، اُن میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔( ۷) آخر کار اس سب کو ہم ایک چٹیل میدان بنا دینے والے ہیں۔( کہف:۷،۸)مال اور اولاد دنیاوی زندگی کی زینت ہیں اورباقی رہنے والی نیکی آپ کے رب کے نزدیک بہتر ہے اور اجرو ثواب میں بھی ہزار گنا ہے۔(کہف:۴۶)تم لوگوں کو جو کچھ بھی دیا گیا ہے وہ محض دنیا کی زندگی کا سامان اور اُس کی زینت ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ اُس سے بہتر اور باقی تر ہے، کیا تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے۔(قصص:۶۰)اور یہ دنیا کی زندگی کچھ نہیں ہے مگر ایک کھیل اور دل کا بہلاواہے،اصل زندگی کا گھر تو دار آخرت ہے، کاش یہ لوگ جانتے۔(عنکبوت: ۶۴)
اوپر والی بات کو یہاں پھر ایک دوسرے انداز سے سمجھایاجارہا ہے۔زمین کی سج دھج جو انسانوں کو دیوانہ بنائے ہوئے ہے، اس کا مقصد انسان کا امتحان لینا ہے کہ وہ قرآن کی روشنی میں نیک اعمال کرتا ہے یا خدا، رسول اورآخرت کو بھول کرآگ میں جانے والا بن جاتا ہے۔ایک دن قیامت آئے گی اور یہی سجی سجائی دنیا چٹیل میدان بن جائے گی۔ان دونوں آیتوں میں دنیا اور آخرت کا موازنہ کرتے ہوئے بتایا جارہا ہے کہ اللہ کے پاس جو کچھ ہے اُس کے مقابلے میں دنیا صرف دل کو بہلانے والے ایک کھیل کی طرح ہے جو آخر ختم ہو جاتا ہے ۔ لیکن جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ ہمیشہ ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔کیا تمہاری عقل اس فرق کو نہیں سمجھ پاتی ؟
(۴) دنیادار لوگوں کا خوفناک انجام:
پس اے نبی! جو شخص ہمارے ذکر سے منہ پھیرتا ہے،اور دنیا کی زندگی کے سوا جسے کچھ مطلوب نہیں ہے اُسے اُس کے حال پر چھوڑ دو۔ (نجم:۲۹)کیا یہ لوگ کبھی زمین میںچلے پھرے نہیں ہیں کہ اُنہیں اُن لوگوں کا انجام نظر آتاجو ان سے پہلے گزر چکے ہیں۔ وہ ان سے یادہ طاقت ور تھے اوران سے زیادہ زبردست آثار زمین میں چھوڑ گئے ہیں، مگر اللہ نے اُن کے گناہوں پر اُنہیں پکڑ لیا اور اُن کو اللہ سے بچانے والا کوئی نہ تھا۔ (مومن: ۲۱)
پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو سمجھا جارہا ہے کہ جو لوگ آپ کی باتیں نہیں مان رہے ہیں اور اپنی دنیا پرستی میں مست و مگن ہیں اُن کو اُن کے حال پر چھوڑ دیجئے۔دوسری آیت میں کہا جارہا ہے کہ کیا ان مکہ والوں نے اپنے علاقے کی اُن قوموں کا انجام اُن کے بچے ہوئے آثار سے نہیں دیکھا کہ وہ اُن کے مقابلے میں کتنے زیادہ طاقتور تھے مگر اللہ کی نافرمانی کے سبب اُن کی تباہی بربادی کا کیسا بھیانک اور خوفناک انجام ہوا ؟
(۵) دنیا چند روزہ زندگی کا سرو سامان :
پھر جب یہ کافر آ گ کے سامنے لا کھڑے کئے جائیں گے تو اُن سے کہا جائے گا تم اپنے حصے کی نعمتیں اپنی دنیا کی زندگی میں ختم کر چکے اور ان کا لطف تم نے اٹھا لیا۔جو گھمنڈ تم زمین میں کسی حق کے بغیر کرتے رہے اور جو نافرمانیاں تم نے کیں اُن کے بدلے میں آج تم کوذلت کا عذاب دیا جائے گا۔ (احقاف: ۲۰ )جو کچھ بھی تم لوگوں کو دیا گیا ہے وہ محض دنیا کی چند روزہ زندگی کا سرو سامان ہے، اور جو کچھ اللہ کے یہاں ہے وہ بہتر بھی ہے اور پائیدار بھی۔ وہ اُن لوگوں کے لئے ہے جو ایمان لائے ہیں۔(۳۶)اوراپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں، جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں،اور اگر غصہ آ جائے تو در گزر کر جاتے ہیں۔ (۳۷)جو اپنے رب کا حکم مانتے ہیں،نمازقائم کرتے ہیں،اپنے ،ہم نے جو کچھ بھی رزق اُنہیںدیاہے اُس میں سے خرچ کرتے ہیں۔(الشوریٰ:۳۸)
پہلی آیت میں کہاجارہا ہے کہ آخرت میں اسلام اور ایمان کا قولی یا عملی انکار کرنے والوںکو آگ کے سامنے کھڑا کر کے کہا جائے گا تم کو اپنامستقبل سنوارنے کا جو موقع دیا گیا تھا وہ تم دنیا میں لطف و لذت پاکر او ر اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں اللہ کی نافرمانی کر کے ختم کر چکے ۔ اب اس کا انجام ذلت کے عذاب کی شکل میں بھگتو۔ دوسری آیت میں بتایا جارہا ہے کہ جن لوگوں نے دنیا پر آخرت کو ترجیح دی، ایمان کے تقاضے پورے کئے، اللہ پر بھروسہ کیا، بڑے بڑے گناہوں اوربے حیائی کے کاموں سے پرہیز کرتے رہے،غصہ آنے پر بھی لوگوں کے قصور معاف کرتے رہے، اپنے رب کے ہر حکم کی پیروی کرتے رہے، نماز کے پابند رہے، اپنے سارے کام آپس کے مشورے سے کرتے رہے اور جو مال اُنہیں ملا تھااُسے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہے اُن کے لئے یہاں ایسی نعمتیں ہیں جو کبھی ختم ہو ں گی ہی نہیں۔
(۶) انسان مالک نہیں امانت دار ہے :
ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو وہ اسے اٹھانے کے لئے تیار نہ ہوئے اور اس سے ڈر گئے مگر انسان نے اسے اٹھا لیا بے شک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے۔(۷۲)اس بار امانت کو اٹھانے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اللہ منافق مردوںاور عورتوں اور مشرک مردوں اور عورتوںکو سزادے اور مومن مردوں اور عورتوں کی توبہ قبول کرے۔اللہ درگزر کرنے والا اور رحیم ہے۔(احزاب:۷۲،۷۳)
زمین پر انسان کو اللہ نے جو خلیفہ بنایا ہے اور ساری چیزوں کو مالکانہ حیثیت سے استعمال کرنے کا حق دیا ہے ،اُس میں انسان کی حیثیت مالک کی نہیں امانت دار کی ہے۔ان سب چیزوں کا اصل مالک اللہ تعالیٰ ہے۔انسان کو چاہئے کہ اپنی زندگی اور دنیا میں جو اسباب اُس کو اللہ نے دیا ہے اُن کا استعمال ایک امانت دار انسان کی طرح کرے۔اپنے آپ کو اُن کا مالک نہ سمجھ بیٹھے۔لیکن جو لوگ خود کو امانت دار کی جگہ مالک بن جاتے ہیں،اُن کی حیثیت منافق اور مشرک جیسی ہو جاتی ہے جن کو اللہ سزا دے گا۔ایسے لوگوں میں مسلم اور غیر مسلم دونوں شامل ہیں۔ مگر جو لوگ ایمان کے تقاضے پورے کرتے اور اپنے گناہوںکی معافی مانگتے رہیں گے اللہ اُن کی توبہ قبول کرے گا، اُن کے گناہ معاف کر دے گا اور رحم و کرم کا معاملہ اُن کے ساتھ کرے گا۔
(۷) معیشت کے اسباب مہیا کئے گئے ہیںزمین میں:
ہم نے زمین کو پھیلایا ، اس میں پہاڑجمائے، ان میں ہر نوع کی نباتات ٹھیک ٹھیک نپی تلی مقدار کے ساتھ اگائی۔(۱۹)اور اس میں معیشت کے اسباب فراہم کئے، تمہارے لئے بھی اور بہت سی ان مخلوقات کے لئے بھی جن کے رازق تم نہیں ہو۔(حجر:۱۹،۲۰) کیا تیر ے رب کی رحمت یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں؟ دنیا کی زندگی میں ان کی گزر بسر کے ذرائع تو ہم نے ان کے درمیان تقسیم کئے ہیں، اور ان میں سے کچھ لوگوں کو کچھ دوسرے لوگوں پر بدرجہا فوقیت دی ہے تاکہ یہ ایک دوسرے سے خدمت لیں۔اور تیرے رب کی رحمت(نبوت) اس دولت سے زیادہ قیمتی ہے جو ( ان کے رئیس ) سمیٹ رہے ہیں۔(زخرف:۳۲)اور کتنی ہی ایسی بستیاں ہم تباہ کر چکے ہیں جن کے لوگ اپنی معیشت پر اترا گئے تھے،سو دیکھ لو وہ ان کے مسکن پڑے ہوئے ہیں جن میں ان کے بعد کم ہی کوئی بسا ہے۔ آخر کار ہم ہی وارث ہو کر رہے۔ (قصص:۵۸) جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے ان کے لئے دنیا کی زندگی بڑی محبوب اور دل پسند بنا دی گئی ہے۔ایسے لوگ ایمان کی راہ اختیار کرنے والوں کا مذاق اڑاتے ہیں مگر قیامت کے روز پرہیزگار لوگ ان کے مقابلے میں عالی مقام ہوں گے۔ رہا دنیا کا رزق تو اللہ کو اختیار ہے جسے چاہے بے حساب دے۔ (البقرہ:۲۱۲) کون ہے جو تمہیں رزق دے سکتا ہے اگر رحمن اپنا رزق روک لے ؟(ملک:۲۱)
پہلی آیت میں کہا جارہا ہے کہ تم جو روزی کماتے ہو اُس کے سارے اسباب تو اللہ نے پیدا کئے ہیںاور ساری مخلوق کو روزی تو اللہ دے رہا ہے پھر تم اللہ کو چھوڑ کر انسانوں اور جھوٹے خداؤںکورازق کیوں سمجھتے ہو۔اللہ نے کسی کواورنچا درجہ دیا ہے اور کسی کو کم تر درجہ دیا ہے۔اگر وہ ایسا نہ کرتا تو ایسے کام جو دولت مند لوگ نہیں کرتے ہیں کون کرتا اور دنیا کی زندگی کیسے چلتی ؟ جو لوگ بد حال اورپس ماندہ ہیں اُن سے نفرت کرنے اور اُن کونیچا سمجھنے کی جگہ تمہیں اُن کی عزت کرنی چاہئے اوراُن کا احسان ماننا چاہئے کہ وہ نہ ہوتے تو تمہاری پریشانی اور مصیبت کتنی بڑھ جاتی۔جو لوگ اپنی خوش حالی اور حد سے زیادہ دولت پر گھمنڈ کرنے لگے دیکھو ہم نے اُن کی بستیاں کیسے تباہ کر دیں۔جو لوگ کافر بنے ہوئے ہیں وہ آخرت کو بھول کر دنیا میں مست و مگن ہیں اور آخرت پر ایمان لانے والوں کا مذاق اڑاتے ہیں، لیکن آخرت میں نیک لوگ ہی عزت دار ہوں گے۔اگراللہ تم کو روزی نہ دے تو کون دے گا ؟
کاش قرآن کی ان آیتوں کو پڑھنے والے مسلمانوں کو سمجھ آئے کہ وہ آخرت کو بھول کرامانت میں خیانت کرنے والے اللہ کے نافرمان بندوں کی پیروی نہ کریں جو، عیش و عشرت ، نام ونمود اورجھوٹی شہرت کے شوق میں اللہ کے باغی اور بد نصیب بنے ہوئے ہیں ۔ جہنم کی آگ میں جلنے والوں کو کامیاب سمجھنا، اُن کی خوش حالی کو دیکھ کر اُن کے جیسے بننے کی حسرت کرنا اور اُن کو مبارک باد دینا، عقل مندی ہے یا حماقت اور جہالت ہے۔
انگارے کو پھول سمجھنا کس درجہ نادانی ہے
نفس کو اپنا خدا بنانابالکل بے ایمانی ہے