ق ’’اور عاد کی طرف ہم نے اُن کے بھائی ہود کو بھیجا۔ اُس نے کہا اے برادران قوم! اللہ کی بندگی کرو، اُس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے۔پھر کیا تم غلط روی سے پرہیز نہ کرو گے۔اُس کی قوم کے سرداروں نے، جو اُس کی بات ماننے سے انکار کر رہے تھے، جواب میں کہا، ہم تو تمہیں بے عقلی میں مبتلا سمجھتے ہیں اورہمیں گمان ہے کہ تم جھوٹے ہو۔ اُس نے کہا اے برادران قوم، میںبے عقلی میں مبتلا نہیں ہوں، بلکہ میں رب العالمین کا رسول ہوں، تم کو اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوںاور تمہارا ایسا خیر خواہ ہوں جس پر بھروسہ کیاجاسکتا ہے……اُنہوں نے جواب دیا ،کیا تو ہمارے پاس اس لئے آیا ہے کہ ہم اکیلے اللہ ہی کی عبادت کریں اور اُنہیں چھوڑ دیں جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے آئے ہیں ؟ اچھا تو لے آ وہ عذاب جس کی تو ہمیں دھمکی دیتا ہے اگر تو سچا ہے۔اُس نے کہا تمہارے رب کی پھٹکار تم پر پڑ گئی اور اُس کا غضب ٹوٹ پڑا۔ کیا تم مجھ سے اُن ناموں پر جھگڑتے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لئے ہیں، جن کے لئے اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی ہے۔ اچھا تو تم بھی انتظار کرو اور میںبھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔آخر کار ہم نے اپنی مہربانی سے ہود اور اُس کے ساتھیوں کو بچا لیااور اُن لوگوں کی جڑ کاٹ دی جو ہماری آیات کو جھٹلاتے تھے اور ایمان لانے والے نہ تھے۔‘‘ (اعراف:۶۵/۷۲)

ق ’’اور ثمود کی طرف ہم نے اُن کے بھائی صالح کو بھیجا۔ اُس نے کہا ، اے برادران قوم!اللہ کی بندگی کرو اُس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے۔ تمہارے پاس تمہارے رب کی کھلی دلیل آ گئی ہے۔ یہ اللہ کی اونٹنی تمہارے پاس ایک نشانی کے طور پر ہے، لہذا اسے چھوڑ دو کہ زمین میں چرتی پھرے۔ اس کو کسی برے ارادے کے ساتھ ہاتھ نہ لگاناورنہ ایک دردناک عذاب تمہیں آ لے گا۔یاد کرو وہ وقت جب اللہ نے قوم عاد کے بعدتمہیں اُس کا جانشیں بنایااور تم کو زمین میں یہ منزلت بخشی کہ آج تم اس کے ہموار میدانوں میں عالی شان محل بناتے ہو اوراس کے پہاڑوں کو مکانات کی شکل میں تراشتے ہو۔ پس اُس کی قدرت کے کرشموں سے غافل نہ ہوجاؤ اور زمین میں فساد برپا نہ کرو۔ اُس کی قوم کے سرداروں نے جو بڑے بنے ہوئے تھے، کمزور طبقہ کے اُن لوگوں سے جو ایمان لائے تھے کہا،کیاتم واقعی یہ جانتے ہو کہ صالح اپنے رب کا پیغمبر ہے ؟ اُنہوں نے جواب دیا ، بیشک جس پیغام کے ساتھ وہ بھیجا گیاہے ہم اُسے مانتے ہیں۔ ان بڑائی کے مدعیوںنے کہا، جس چیز کو تم نے مانا ہے ہم اُس کے منکر ہیں۔پھر اُنہوںنے اُ س اونٹنی کو مار ڈالااور پورے غرور کے ساتھ اپنے رب کے حکم کی خلاف ورزی کر گزرے۔اور صالح سے کہہ دیا، لے آ وہ عذاب جس کی تو ہمیں دھمکی دیتا ہے اگر تو واقعی پیغمبروں میں سے ہے۔آخر کار ایک دل ہلادینے والی آفت نے اُنہیں آ لیا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے کے پڑے رہ گئے۔اور صالح یہ کہتا ہوا اُن کی بستیوں سے نکل گیا کہ اے میری قوم میںنے اپنے رب کا پیغام تجھے پہنچا دیااورمیں نے تیری بہت خیر خواہی کی، مگر میں کیا کروں تجھے اپنے خیر خواہ پسند ہی نہیں ہیں۔‘‘ (اعراف: ۷۳/ ۷۹ )
ق ’’ذرا انہیںعادکے بھائی( ہود)کا قصہ سناؤ،جب کہ اُس نے احقاف میں اپنی قوم کو خبردار کیا تھا، اور ایسے خبردار کرنے والے اُس سے پہلے بھی گزر چکے تھے اور اُس کے بعد بھی آتے رہے، کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو، مجھے تمہارے حق میں ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب کا اندیشہ ہے۔اُنہوں نے کہا کیا تواس لئے آیا ہے کہ ہمیں بہکاکر ہمارے معبودوں سے الگ کر دے ؟ اچھا تو لے آ اپناوہ عذاب جس سے تو ہمیںڈراتا ہے اگرواقعی تو سچا ہے۔اُس نے کہا اس کا علم تو اللہ کو ہے،میں تمہیں صرف وہ پیغام پہنچا رہا ہوں جسے دے کر مجھے بھیجا گیاہے، مگر میں دیکھ رہا ہوں کہ تم لوگ جہالت برت رہے ہو۔پھر جب اُنہوں نے اُس عذاب کو اپنی وادیوں کی طرف آتے دیکھا تو کہنے لگے،یہ بادل ہے جو ہم کو سیراب کرے گا۔نہیں، بلکہ یہ وہی چیز ہے جس کے لئے تم جلدی مچا رہے تھے۔یہ ہوا کا طوفان ہے جس میں دردناک عذاب چلا آرہا ہے، اپنے رب کے حکم سے ہر چیز کو تباہ کر ڈالے گا۔آخر کار اُن کا یہ حال ہوا کہ اُن کے رہنے کی جگہوں کے سواوہاں کچھ نظر نہ آتا تھا۔اس طرح ہم مجرموں کو بدلہ دیا کرتے ہیں۔ (احقاف: ۲۱/ ۲۵ )
ق تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارے رب نے کیا برتاؤ کیاعاد کے ساتھ ؟ اونچے ستونوں والے عاد ارم کے ساتھ( عاد کے جد امجد ارم کے ساتھ)جن کے مانند کوئی قوم دنیا کے ملکوں میں پیدا نہیں کی گئی۔اور ثمود کے ساتھ جنہوں نے وادی میں چٹانیں تراشی تھیں ؟(سورہ الفجر:۱ تا۹)
نوح علیہ السلام کی قو م کی تباہی کے بعد بچ جانے والوں میں جس قوم کوعروج عطا ہوا وہ قوم عاد تھی۔اس کے دور میں اس کے مقابلے کی کوئی قوم نہ تھی۔جسمانی اعتبار سے اس کے افراد بہت مضبوط تھے۔یہ قوم ایک شاندار تمدن کی مالک تھی۔ بلند و بالا عمارتیں بنانا اس قوم کاشوق تھا۔حد سے زیادہ ظالم قسم کے لوگوں کے ہاتھوں میں اس قوم کا سیاسی نظام تھا جن کے سامنے کسی کو بولنے کی ہمت نہیں تھی۔ان کو اپنی طاقت اور بڑائی کا بہت زیادہ غرور تھا۔ یہ لوگ اپنی ہمسایہ قوموں سے بہت ناروا سلوک کرتے تھے۔ ہود علیہ السلام نے جب ان کو سیدھی راہ کی طرف بلایا تو اپنے غرور میں انہوںنے اُن کی بات نہ مانی اورآخر کار عذاب الٰہی کے شکار ہو کر نیست و نابود ہو گئے۔
عرب کی قدیم قوموں میں مشہور قوم عاد اور ثمود سے اہل عرب واقف تھے ۔ قو م ثمود کاذکر کہانیوں اور شاعری میں اہل عرب کے درمیان عام تھا۔یہ قوم شمال مغربی عرب کے علاقہ میں رہتی تھی جسے الحجر کہا جاتا ہے۔مدینہ اور تبوک کے درمیان حجاز ریلوے پر ایک اسٹیشن ہے جو مدائن صالح کہلاتا ہے۔یہ قوم ثمود کا صدر مقام تھا اور الحجر کہلاتا تھا۔ابھی بھی وہاں ہزاروں ایکڑ کے دائرے میں اُن عمارتوں کے باقیات موجود ہیں جنہیں ثمود نے پہاڑوں کو تراش تراش کر تعمیر کیا تھا۔یہاں وہ کنواں بھی موجود ہے جس سے صالح علیہ السلام کی اونٹنی پانی پیتی تھی۔قوم کے لوگوں کو صالح علیہ السلام نے بتا دیا تھا کہ یہ اونٹنی اللہ کی نشانی ہے۔ یہ اس مخصوص کنویں سے پانی پئے گی۔ تم لوگ اس کنویں کے علاوہ جو کنویں ہیں اُن کا پانی استعمال کرو۔وہاں ایک پہاڑ ی درہ بھی ہے جہاں سے وہ اونٹنی نیچے اتر تی تھی۔غزوہ تبوک کے موقع پر جب نبی ﷺ ادھر سے گزرے تھے تو صحابہ کو وہ کنواں اور وہ پہاڑی درّہ دکھایا تھا۔قوم ثمود کی تکنیکی ترقی اور عمارتی تعمیر میں اُن کی مہارت کا اندازہ لگائیے کہ وہ کس طرح پہاڑوں کو تراش کر عمارتیں بناتے ہوں گے۔آج سائنس اور ٹکنالوجی کی اتنی ترقی ہوجانے کے بعد بھی پہاڑوں کو تراش کرنفیس عمارتیں بنانے کا فن ایجاد نہیں ہو سکا ہے۔صالح علیہ السلام ایک مدت تک قوم کو سیدھی راہ دکھاتے رہے لیکن قوم نہ مانی اور اُس نے مطالبہ کیا کہ لے آؤ وہ عذاب جس کی تم دھمکی دے رہے ہو۔تب اونٹنی نمودار ہوئی۔قوم کے ایک سرکش نے ایک دن اُس اونٹنی کو ہلاک کر دیا اورقوم تباہ کر دی گئی۔
قرآ ن کی ان آیتوں میں موجود عاد اور ثمود کے قصے سے ہمیں درج ذیل نصیحتیں اور عبرت ملتی ہے:
(۱) اللہ کے پیغمبر جب اللہ کا حکم لے کر آئے تو اُن کی مخالفت سماج کے اونچے طبقے والوں کی۔ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔اللہ تعالیٰ انسانوں کے طبقے کو اپنے فضل و کرم سے زیادہ نوازتا ہے وہی طبقہ اللہ کا سب سے زیادہ نافرمان اورناشکرا بن جاتا ہے۔ مطلب یہ کہ دولت اور دنیا کی چمک دمک انسان کو فرماں بردار ، نیک اورصالح نہیں،بے دین،نافرمان اور ناشکرا بنا دیتی ہے۔
(۲) اس کے مقابلے میں جو لوگ سماج کے کمزور، نادار اور دولت و جائیداد میں کمتر درجے میں ہوتے ہیں اُن کی بڑی اکثریت فرماں بردار ، نیک ،صالح اور ناشکرگزار ہوتی ہے۔
(۳) ہماری آج کی دنیا میں بھی ایسی ہی صورت حال پائی جاتی ہے۔مسلم سماج کا اونچا طبقہ ہے وہ مکمل طور پر بے دین ، دولت اور دنیا کا حد سے زیادہ لالچی،غریب، معذور اور مجبور لوگوں سے ہمدردی اور محبت کی جگہ نفرت کرنے والا اور اُن کو حقارت کی نظر سے دیکھنے والا ہے۔اپنی حد سے زیادہ دولت کو اپنا شوق پورا کرنے کے لئے فضلو خرچی کرکے برباد کرتا ہے، لیکن اللہ کے محتاج اور مجبور و معذور بندوں کی مدد کے لئے نہیں دیتا ہے۔انتہائی مغرور،کم ظرف،بخیل،بے درد،لالچی اور انسانیت سے محروم جانوروں کی طرح زندگی گزارتا ہے۔
(۴) اللہ اپنے جن بندوں سے محبت کرتا ہے اوراُنہیں اپنی دوستی سے سرفراز کرتا ہے اُنہیں کم اور قلیل حلال اور پاک روزی کھلاتا ہے، جس سے وہ اعلیٰ اخلاق و کردار والے اورعوام کی نظروں میں محبوب اور محترم بن جاتے ہیں۔اور اُس کے جو بندے اللہ کے فضل پانے کے بعد ناشکرے اور احسان فراموش بن جاتے ہیں اُن کو جانوروں کی طرح ناپاک اورحرام روزی دیتا ہے۔ اوراُنہیں سب کچھ دینے کے بعد مسلم سماج میں بے عزت اور ذلیل کر دیتا ہے۔ سماج والے ان نام نہاد بڑے لوگوں سے نفرت کرتے اور ان کو حقارت کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ان کی تباہی اور بربادی نیز عبرت ناک موت پر کسی کو افسوس اور ملال نہیں ہوتا ہے۔خود اس طبقے کے اپنے رشتہ دار اور دوست احباب برے وقت میں ان کا ساتھ نہیں دیتے ہیں۔
(۵) عاد اور ثمود کی داستان جو قرآن نے سنائی ہے ، اُس سے یہ سبق ملتا ہے کہ اللہ نے ان قوموں کو جن نعمتوں سے نوازا تھا آج کی دنیا اُس کا تصور بھی نہیں کر سکتی ہے۔اُن کی طاقت اور شان و شوکت کا ایسا رعب اور دبدبہ تھا کہ کوئی دوسری قوم اُن سے لڑنے اور اُن کا مقابلہ کرنے کی ہمت ہی نہیں رکھتی تھی۔اُن کی دنیاوی ترقی او ر ٹکنالوجی کا یہ عالم تھا کہ وہ ضرورت سے نہیں شوق سے پہاڑوں کو کاٹ کاٹ کر شاندار عمارتیں بناتے تھے۔لیکن ایسی بے مثال دنیاوی ترقی کے باوجود جب اُنہوں نے اپنے پیغمبر کی بات نہیں مانی اور اللہ کی فرماں برداری سے بغاوت کرنے لگے تو اُن کو ایسا عبرت ناک عذاب کا سامنا کرنا پڑا کہ آج اُن کا نام و نشان بھی نہیں ہے۔اپنی شہرت اور ناموری کے لئے زمین پر جو کچھ اُنہوں نے کیا تھا،وہ اُن کی ناکامی اوربربادی کی داستان سنا رہی ہے۔
(۶) اس سلسلے میں نبی ﷺ کے ارشادات ملاحظہ فرمائیے:
ق عمار بن یاسرؓ کہتے ہیں،مجھے نبی ﷺنے قبیلہ قیس کے پاس دینی احکام کی تعلیم کے لئے بھیجا۔وہاں پہنچ کر اندازہ ہو اکہ یہ گویا بدکے ہوئے اونٹ ہیں۔ دنیا کے حریص، ان کا کوئی نصب العین نہیں،ان کی ساری دلچسپی اپنی بکریوں اور اونٹوں سے ہے۔ جب وہاں سے لوٹ کرآیا تو نبی ﷺنے پوچھا اے عمار کیا کیا؟میں نے بتایا کہ یہ لوگ دین سے بالکل غافل ہیں۔ نبی ﷺنے فرمایا: ان سے زیادہ حیرت انگیز حالت اُن لوگوں کی ہے جو دین کو جاننے کے بعد ان ہی کی طرح دین سے غافل ہو گئے۔(المنذری بحولہ طبرانی)ضعمر وبن عوفؓ سے روایت ہے :نبی ﷺنے فرمایا:مجھے تم پر فقر و ناداری کا زیادہ اندیشہ نہیں ہے، بلکہ مجھے اندیشہ اس بات کا ہے کہ تم پر دنیاوی مال و متاع کے دروازے کھول دیے جائیں ،جس طرح تم سے پہلے کے لوگوں پر کھول دیے گئے، پھر تمہیں دنیا کی اُسی طرح چاٹ لگ جائے جس طرح تم سے پہلے کے لوگوں کو لگی تھی(نتیجہ یہ نکلے )کہ دنیا تمہیں اس طرح تہس نہس کر کے رکھ دے جس طرح تم سے پہلے کے لوگوں کو اس نے برباد کیا ۔ (بخاری و مسلم)ضحضرت جابرؓ روایت کرتے ہیں نبی ﷺنے فرمایا:میں اپنی امت کے بارے میں دو چیزوں کا بہت زیادہ اندیشہ کرتا ہوں، ایک دنیا و اسباب دنیا کی محبت، دوسرے یہ دنیا سازی کے لمبے چوڑے منصوبے بنانے لگے گی ۔تو حب دنیا کے نتیجے میں یہ حق سے دور جا پڑے گی اور دنیا سازی اسے آخرت سے غافل کر دے گی۔سنو دنیا تیزی سے جا رہی ہے اور آخرت تیزی سے آ رہی ہے اور دونوں کے ماننے والے اس سے محبت کرتے ہیں، ہو سکے تو تم دنیا کے پرستار نہ بنو، تم اس وقت عمل کی دنیا میں ہو اور یوم حساب نہیں آیا ہے،کل تم آخرت میں ہوگے جہاں حساب ہوگا اور عمل کا کوئی موقع نہیں ہوگا۔ (مشکوٰۃ)ضحضرت کعبؓ بن عیاض روایت کرتے ہیں انہوں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ہر امت کے لئے ایک آزمائش ہوتی ہے اور میری امت کی آزمائش کے لئے مال و دولت ہے۔ (ترمذی) ض حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں:نبی ﷺ نے فرمایا :لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں آدمی اس بات کی پروا نہیں کرے گا کہ اس نے جو مال کمایا ہے وہ حلال ہے یا حرام۔ (بخاری)ضحضرت جابر ؓ روایت کرتے ہیں نبی ﷺ نے فرمایا :حرام کی کمائی سے پلا ہوا جسم جنت میں نہیں جائے گا۔ ہر وہ جسم جو حرام سے پلا ہے اس کے لئے جہنم کی آگ ہی زیادہ موزوں ہے۔(احمد،دارمی،بیہقی)ضنبی ﷺ نے فرمایا :اللہ تعالیٰ پاک ہے اور وہ صرف پاکیزہ مال کو ہی قبول کرتا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو یہی حکم دیا ہے، جس کا اس نے رسولوں کو حکم دیا ہے۔چنانچہ اس نے فرمایا: اے پیغمبرو! پاکیزہ روزی کھاؤ اور نیک عمل کرو۔ اور مومنوں کو خطاب کرتے ہوئے اس نے کہا کہ اے اہل ایمان جو پاک اور حلال چیزیں ہم نے تم کو بخشی ہیں وہ کھاؤ۔پھر ایک ایسے آدمی کا نبی ﷺ نے ذکر کیا جو لمبی دوری طے کر کے مقدس مقام(خانہ کعبہ) پر آتا ہے، غبار سے اٹا ہوا ہے، گرد آلود ہے اور اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف پھیلا کرکہتا ہے اے میرے رب! اے میرے رب!(اور دعائیں مانگتا ہے) حالانکہ اس کا کھانا حرام ہے ، اس کا پانی حرام ہے، اس کا لباس حرام ہے اور حرام پر ہی وہ پلا ہے تو ایسے شخص کی دعا کیوں کر قبول ہوسکتی ہے۔( مسلم )……پڑھئے ،صارمؔ کیاکہتے ہیں:
اس جہان بے وفا کے واسطے سب انتظام
اُس اندھیری کوٹھری کے واسطے کچھ بھی نہیں
کیوں جمع کرتے ہو صارمؔ اس قدر سامان تم
ہاتھ خالی جاؤ گے، رہ جائے گا سب کچھ یہیں