جب نبی مکرم ﷺ منصب نبوت پر سرفراز ہوئے تو اس وقت سے اہل اسلام نے وقت کا حساب کتاب رکھا۔ نبوت کے بعد جو سال آئے وہ نبوی سال کہلائے۔حضور کی عمر عزیز ۵۲سال کی ہو چکی تھی اورنبی بننے کے بعد۱۲؍ سال گزر چکے تھے ۔اسی سال کے ساتویں مہینہ رجب کی ۲۷؍ تاریخ تھی۔ رسول اللہ ﷺ حرم کعبہ میں سو رہے تھے۔ جبرئیل ؑ نے آکر آپ کو جگایا۔ کچھ خواب اورکچھ بے خوابی کی حالت میں حضور کو زمزم کے پاس لے گئے، سینہ چاک کیا، زمزم کے پانی سے اُس کو دھویا اور پھر اُسے حلم(غصے کو سہنا)،بُردباری(برداشت کرنا)،دانائی(عقل مندی)، ایمان اور یقین سے بھر دیا۔اس کے بعد سواری کے لئے ایک جانورپیش کیا جوخچر سے کچھ چھوٹا سفید رنگ کا تھا۔بجلی کی رفتار سے وہ چلتا تھا۔ جب حضور ﷺ اس پر سوار ہوئے تو وہ چمکا۔جبرئیل ؑ نے اسے تھپکی دی اور کہا کیا کرتا ہے۔ آج تک ان سے بڑی کسی شخصیت نے تیری سواری نہیں کی۔اس سواری کو عام طور سے براق کہا گیا ہے۔اس پر سوار ہو کر حضرت جبرئیل ؑ کے ساتھ نبی مکرم ﷺ روانہ ہوئے۔ سب سے پہلے مدینہ پہنچے اور وہاں پہنچ کرنماز ادا کی۔ جبرئیل ؑ بولے آپ یہاںہجرت کر کے آئیں گے۔وہاں سے چلے تو کوہ طور پر پہنچے جہاں موسیٰ ؑاللہ تعالیٰ سے بات کیا کرتے تھے۔پھر وہاں سے روانہ ہوئے تو بیت لحم پہنچے جہاں عیسیٰ ؑ پیدا ہوئے تھے۔اس کے بعد چوتھی منزل بیت المقدس کی آئی جہاں پر براق کا سفر ختم ہو گیا۔

رابطہ:8298104514
پھر نبی ﷺ ہیکل سلیمانی میںداخل ہوئے تو اُن سب پیغمبروں کو موجود پایا جو شروع سے آخر تک دنیا میں پیدا ہوئے تھے۔آپ نے وہاں امامت کی اور تمام نبیوںنے آپ کی امامت میں نماز پڑھی۔اسی بنیاد پر نبی ﷺکو امام الانبیاء کہا جاتا ہے۔اس کے بعد ایک سیڑھی لائی گئی جس پر چڑھ کر آپ آسمان پر پہنچے۔ سیڑھی کو عربی میںمعراج کہتے ہیں۔ اسی وجہ سے یہ واقعہ معراج کے نام سے مشہور ہوا۔اس واقعہ کا ذکر سورۂ بنی اسرائیل کے شروع میں ہے۔سورہ بنی اسرائیل کا ایک نام سورۂ اسراء بھی ہے۔معراج کا واقعہ ایک معجزہ ہے لیکن قرآن میں یہ واقعہ کو کہانی سنانے کے لئے نہیں ، بلکہ سورہ اسراء میں جو ہدایات دی گئی ہیں، اُن کو سمجھنے،توجہ دینے اور اُن پر عمل کرنے کے لئے پیش کیا ہے۔اس سورہ کی ہدایات کی تفصیل یہ ہے:
(۱) صرف اللہ کی بندگی کی جائے اور اس کی بادشاہت میں کسی کو شریک نہ کیا جائے۔ یہ شرک ہے اور شرک کسی قیمت پر معاف نہیں ہوگا۔
(۲) خاندانی رشتے داری کا پورا پورا لحاظ رکھا جائے۔ اولاد والدین کی فرماں بردار رہے اور رشتہ دار ایک دوسرے کے ہمدردا ور مددگار بنے رہیں۔ حدیث رسول ہے کہ رشتوں کو کاٹنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔
(۳) سماج میں جو لوگ مفلس اور معذور ہیںیا جو وطن سے دور ہیں اُن کو بے سہار ا نہ چھوڑ دیا جائے۔اُن کی طرف سے غافل نہیں رہا جائے۔
(۴) دولت کو فضول ضائع نہ کیا جائے۔ فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں۔اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔
(۵) لوگ اپنے خرچ کو اعتدال پر رکھیں۔ نہ بخیل بن جائیںاور نہ فضول خرچ۔ اپنے مال سے بندگان خدا کا حق نکال کر اُن تک پہنچائیں۔
(۶) اپنے بندوں کے رزق کا جو انتظام اللہ تعالیٰ نے کیا ہے اُس پر قناعت کریں اور اُس کے نظام میں غلط اور حرام طریقہ نہ اپنائیں۔
(۷) روزی کی کمی کے ڈر سے بچوں کی پیدائش کو روکنے کی کوشش نہ کریں۔ پہلے، اب اورآگے آنے والی تمام مخلوق کا رازق اللہ ہے ، انسان نہیں۔
(۸) خواہش نفس کے دباؤ میں زنا نہ کر بیٹھیں۔اس سے سخت پرہیز کیا جائے اور جن چیزوں سے اس کی تحریک پیدا ہوتی ہے اُن پر بھی لگام لگائیں ۔
(۹) انسانی جان کا احترام کیا جائے اور کسی جان کو ناحق قتل نہ کیا جائے ۔ انسان پر اپنی جان لینا(یعنی خود کُشی) بھی حرام ہے۔
(۱۰) یتیموںکے مال کی حفاظت کی جائے۔جب وہ اس لائق ہو جائیں کہ اپنا بھلا برا سمجھنے لگیں تو اُن کا مال اُن کے حوالے کر دیا جائے۔
(۱۱) عہد و پیمان کو پورا کیا جائے۔ خدا کے سامنے اس کی جوابدہی کرنی ہوگی۔
(۱۲) تجارت میں ناپ تول میں احتیاط رہے۔پیمانے پورے بھرے جائیں۔
(۱۳) وہم و گمان سے بچا جائے۔ جس چیز کا علم نہ ہو اُس کی پیروی کرنا غلط ہے۔ اللہ کے سامنے انسان کو اپنے تمام اعمال کی جواب دہی کرنی ہوگی۔
(۱۴) تکبر کی چال نہ چلو۔تم نہ زمین کو پھاڑ سکتے ہو نہ پہاڑ کو روند سکتے ہو۔
معراج کے سفر کی تفصیل قرآن میں موجود نہیں ہے۔معراج کے اس سفر کی تفصیل حدیثوںمیںملتی ہے۔۲۸ ؍ایسے روایت کرنے والے ہیں جنہوں نے معراج کے سفر کی تفصیل بتائی ہے۔ان میںسے ۲۱؍ وہ ہیں جنہوں نے خود اپنے کان سے یہ باتیں نبی مکرم ﷺ کی زبانی سنی ہیں۔ان حدیثوںکے حوالے سے یہ ایک نہایت دلچسپ، حیرت انگیز اور نصیحت و عبرت سے لبریز سفر نامہ بنتا ہے جس کی تفصیلات اس طرح ہے:
(۱) سیڑھی کے ذریعہ پہلے آسمان پر پہنچے تو پوچھا گیا کون آیا ہے۔جبرئیل علیہ السلام نے بتایاکہ محمد ﷺ آئے ہیں اور اپنا نام بھی بتایا۔پوچھا گیا کیا بلایا گیا ہے۔ جواب دیا ہاں۔ تب پہلے آسمان کا دروازہ کھلا۔وہاں حضور ﷺ کی ملاقات فرشتوںاور اُن روحوں سے ہوئی جو دنیا میں صالح اورنامور لوگ تھے۔پھر حضرت آدم علیہ السلام سے بھی ملاقات ہوئی۔
(۲) حضور ﷺنے دیکھا ، ایک جگہ لوگ فصل کاٹ رہے ہیں۔جتنی کاٹتے ہیں اُس سے زیادہ وہ بڑھ جاتی ہے۔پوچھا یہ کیا ہورہا ہے ؟ کہا گیا یہ وہ لوگ ہیں جو دنیامیں اللہ کی راہ میں جہاد کیا کرتے تھے۔
(۳) دیکھا کہ کچھ لوگوں کے سر کچلے جارہے ہیں۔ پوچھا یہ کیا ہو رہا ہے ؟ کہاگیا یہ ایسے سر والے ہیں جن کے سر دنیا میں نماز کے لئے سجدے میںنہیںجایا کرتے تھے۔
(۴) کچھ لوگ دکھائی دیے جن کے کپڑوںمیں آگے پیچھے پیوندتھے اور وہ مویشی کی طرح گھاس چر رہے تھے۔پوچھا یہ کیاہے ؟ جواب ملا یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مال کی زکوٰۃ دنیا میں نہیں نکالا کرتے تھے۔
(۵) دیکھا کہ ایک آدمی نے لکڑی کاگٹھر جمع کر کے اٹھاناچاہا مگر اٹھا نہ سکا۔ اُس نے اُس گٹھر میں اور لکڑیاںجمع کر لیں۔ایسا کئی بار کیا۔پوچھا یہ کون احمق ہے ؟ جواب ملا یہ وہ آدمی ہے جس کو ایک ذمہ داری دی گئی تو وہ اُسے ٹھیک سے ادانہ کر سکا ۔ اور دوسری ذمہ داریاںلیتا چلا گیا۔
(۶) دیکھا کچھ لوگوںکی زبان اور ہونٹ قینچیوں سے کترے جا رہے ہیں۔ پوچھا یہ کیا ہورہا ہے ؟ کہا گیا یہ ایسے مقرر ہیں جو اپنی زبان سے غیر ذمہ دارانہ باتیں کہتے تھے اور فتنے پھیلاتے تھے۔یعنی لوگوں کو آپس میںلڑاتے تھے۔
(۷) دیکھا ایک چھوٹے سوراخ سے ایک موٹا بیل نکلا اور پھر اُسی سوراخ میںجانے کی کوشش کرنے لگا۔ پوچھا یہ کیا ہے ؟ کہا گیا یہ اُس آدمی کی مثال ہے جس نے اپنی زبان سے ایسی بات کہہ دی جس پر پچھتایا اور اُس کی تلافی کرنا چاہا مگر نہ کر سکا۔
(۸) ایک جگہ دیکھا کچھ لوگ اپنا ہی گوشت کاٹ کاٹ کر کھا رہے ہیں۔ پوچھا یہ کیا معاملہ ہے ؟ کہا گیا یہ وہ لوگ ہیںجو دوسروں پر لعنت ملامت کیا کرتے تھے۔
(۹) وہیں پر کچھ لوگ تانبے کے ناخن والے تھے اور وہ اپنے اُنہیں ناخنوں سے اپنے منہ اورسینے نوچ رہے تھے۔ پوچھا یہ کیاہورہا ہے ؟ کہا گیا یہ وہ لوگ ہیں جو دوسروںکے پیٹھ پیچھے اُن کی برائیاں کیا کرتے تھے۔
(۱۰) دیکھا کچھ لوگوںکے ہونٹ اونٹوں جیسے ہیں اور وہ آگ کھا رہے ہیں۔ پوچھا یہ کیا ہورہا ہے ؟ کہا گیا یہ وہ لوگ ہیں جویتیموں کا مال ناجائز طور پر کھایا کرتے تھے۔
(۱۱) دیکھا کچھ لوگ پیٹ کے بل لیٹے ہوئے ہیں اور اُن کے پیٹ میں سانپ بھرے ہوئے ہیں۔ پوچھایہ کون لوگ ہیں ؟ کہا گیا یہ لوگ دنیا میںسود کھایا کرتے تھے۔
(۱۲) ایک جگہ دیکھا ایک طرف عمدہ نفیس گوشت رکھا ہوا ہے اور ایک طرف سڑا ہوا گوشت رکھا ہے۔ کچھ لوگ اچھا گوشت چھوڑ کر سڑا ہوا گوشت کھا رہے ہیں۔ پوچھا یہ کیا ہو رہا ہے ؟ کہا گیا یہ وہ مردا ور عورتیںہیںجو اپنی بیویوں اور شوہروںکوچھوڑ کر دوسری عورتوں اور مردوںکے ساتھ حرام کاری کیا کرتے تھے۔
(۱۳) ایک جگہ دیکھا کچھ عورتیں اپنی چھاتیوں کے بل لٹک رہی ہیں۔ پوچھا یہ کیا ماجرا ہے ؟ کہا گیا یہ وہ عورتیںہیں جنہوں نے اپنے شوہروں کے سرایسے بچے منڈھ دیے جو اُن کے نطفے سے پیدا نہیں ہوئے تھے۔
وہاں سے چل کر نبی کریم ﷺدوسرے آسمان پر پہنچے۔ وہاں یحییٰ اور عیسیٰ علیہم السلام سے ملاقات ہوئی۔تیسرے آسمان پر پہنچے تو یوسف علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔چوتھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام اور پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ ساتویںآسمان پر پہنچے تو اپنی ہی شکل کے آدمی سے ملاقات ہوئی۔
بتایا گیا یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں۔وہاں سے سدرۃ المنتہیٰ پہنچے۔ یہ وہ مقام تھا جہاں سے آگے کسی مخلوق کو جانے کا حق نہیں تھا۔اسی مقام پر بار گاہ رب العالمین سے ہدایات آتی ہیںاور وہاں سے زمین والوں تک لائی جاتی ہیں۔اس مقام پر رسول اللہ ﷺ کو جنت دکھائی گئی۔
وہاں پر حضرت جبرئیل علیہ السلام رک گئے اور حضور ﷺاکیلے آگے بڑھے یہاں تک کہ بارگاہ ربالعالمین تک پہنچ گئے۔اللہ تعالیٰ نے اُن سے باتیں کیں اوریہ تحفے دیے:(۱)روزانہ پچاس وقت کی نماز فرض کی گئی۔
(۲) سورہ بقرہ کی آخری دو آیتیں اسی موقع پر عطا ہوئیں۔
(۳) فرمایا گیا کہ جو نیکی کا ارادہ کرے گا اُس کے حق میں ایک نیکی لکھ لی جائے گی۔ جب اُس ارادے پر عمل کرے گا تو دس نیکیاںملیں گی۔ جو برائی کا ارادہ کرے گا تو جب تک اُس پر عمل نہ کرلے اُس کے نامہ اعمال میں برائی لکھی نہیں جائے گی۔
وہاں سے واپس ہوئے تو پھر موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔اُنہوں نے کہا کہ آپ کی امت کمزور ہے پچاس وقت کی نماز ادانہ کر سکے گی۔جائیے کم کرائیے۔حضور ﷺواپس گئے اور خدا وند عالم سے نماز کم کرنے کی درخواست کی۔ دس نما ز کم کر دی گئی۔موسیٰ علیہ السلام نے کہا یہ بھی زیادہ ہے۔ آپ پھر گئے۔ اسی طرح پچاس نمازیں کم ہوتے ہوتے پانچ پر آ گئیں۔کہا گیا نمازیں تو لوگ پانچ وقت ہی پڑھیں گے لیکن اجر و ثواب اُن کو پچاس وقت کی نمازوں کا ہی ملے گا۔
وہاں سے پھرسیڑھی سے اتر کر بیت المقدس تک آئے۔یہاں پھر سارے انبیا موجود تھے۔ فجر کی نماز پہلے کی طرح اداکی اور پھر براق پر سوار ہو کر مکہ مکرمہ واپس آ گئے۔یہ پورا سفر رات کے ایک حصے میںانجام پا گیا،جب کہ مکہ سے بیت المقدس صرف جانے میں دومہینے لگتے تھے۔صبح کے وقت جب لوگوں سے اس کا تذکرہ کیا تو کوئی ماننے کو تیار نہیں تھا۔ابوبکر صدیق ؓ نے ایک ترکیب کی۔ پوچھا نبی ﷺ آپ نے وہاں پر کیا دیکھا۔نبی ﷺ فرماتے ہیںکہ اللہ تعالیٰ نے پورا بیت المقدس میرے سامنے پیش کر دیا۔میںاُسے دیکھتا تھا اور ہر چیز کے متعلق بتا دیتا تھا۔یہ سن کر وہ لوگ جوبیت المقدس جا چکے تھے سوچنے لگے کہ اگر یہ وہاں گئے نہیں تو اُس کے متعلق بتا کیسے رہے ہیں۔آج کی طرح کا زمانہ تو تھا نہیں کہ پلک جھپکتے ایک جگہ کی خبر اور تصویر دوسری جگہ پہنچ جایا کرتی ہے۔اللہ نے جن کو ہدایت دی وہ معراج کا واقعہ سن کر ایمان لے آئے ۔جو ہدایت سے محروم رہے وہ صرف سوچتے ہی رہ گئے۔ہدایت اور عمل کی توفیق اُن کو نصیب نہیں ہوئی۔
اسلام ایسے احکام دیتاہے جو لوگوں کو سیدھی راہ دکھاتے ہیں، اللہ کا فرماں بردار بناتے ہیں،نبی ﷺکی اطاعت کراتے ہیں،اللہ کی رحمت کا حقدار بناتے ہیں اورجنت کا مہمان بننے کے لئے تیار کرتے ہیں۔اور ان سب کے لئے نیک اور صالح عمل کرنا،ہر طرح کی برائیوں سے بچنا ضروری اور فرض بتاتاہے۔لیکن دنیا پرست اوردولت کے لالچی عالموں ،پیروںاور مرشدوں نے امت کو بزرگان دین کا عقیدت مند اور مزار پرستی کا شوقین بنا کر،جھاڑ پھونک،دعا تعویذ کے جھمیلے میں پھنسا کر شفاعت اور آسانی سے جنت کا حقدار بنانے کا جھانسا دے کر نیک عمل سے غافل اور گناہ کرنے پر ڈھیٹ بنا دیا ہے۔ معراج کے اس معجزے کو قصے کہانی کی طرح سناتے ہیںاورنبیﷺ کی شان میںبھی قصیدے پڑھتے ہیں، لیکن اس سے جو نصیحت ملتی ہے وہ نہیںبتاتے ہیں۔ اوربہتیرے ایسے بدنصیب ہیں جو۲۷؍ رجب کو مسجدوںمیں چراغاں تو کرتے ہیں لیکن رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مطابق نہ تو زندگی گزارتے ہیںاور نہ شریعت کا احترام کرتے ہیں۔دیکھیں اس مضمون کو پڑھ کر کتنے لوگ سیدھی راہ کے راہی بنتے ہیں ؟