رسول اللہﷺ کی بعثت سے پہلے کی جو دنیا تھی اُس میں عورت کو قدر و منزلت کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔عورتوں کو زندگی کے کسی معاملے میں رائے دینے کا حق نہیں تھا۔مرد جب باہر جاتے تو عورتوں کو جانوروں کی طرح زنجیروں میں باندھ کر رکھتے تھے۔عورتوں کو جائیداد میں حق نہیں ملتاتھا۔ عورت اپنی مرضی سے اپنی شادی نہیں کر سکتی تھی۔ عورت کو شادی کے وقت اُس کا باپ یا سرپرست دان کیا کرتا تھا۔عورت کو ہر طرح کی برائی اور فتنہ و فساد کی جڑ بتایا جاتا تھا۔ عورت سے محبت نہیں نفرت کی جاتی تھی۔اونچی ذات کے لوگوں کے سامنے نیچی ذات کی عورتوں کو اپنا جسم بھی قاعدے سے چھپانے کا حق نہیں تھا۔جب کسی عورت کا شوہر مرتا تھا تو اُس کی بیوی کو شوہر کی لاش کے ساتھ زندہ جلا دیاجاتا تھا۔

عرب میں بیٹی کی پیدائش کو ذلت و رسوائی کا سبب مانا جاتا تھا۔وہ اتنے ظالم، سنگ دل اور حیوان بن چکے تھے کہ اپنی ننھی ننھی بچیوں کو زندہ دفن کر دیا کرتے تھے اور اُن کو اس کا کچھ ملال نہیں ہوتا تھا۔اس ظالمانہ روش کے نتیجے میں اُن کے یہاں عورتوں کی تعداد کم ہو گئی تھی چنانچہ جب کسی لڑکی کی شادی طے ہوتی تھی تو لڑکی والے لڑکے والوں سے لڑکی کے لئے مہر کا مطالبہ نہیں کرکے یہ شرط لگاتے تھے کہ ہماری لڑکی کے بدلے میں تم کو بھی اپنے خاندان کی لڑکی ہمارے خاندان کے لڑکے کے لئے دو۔لڑ کی کے بدلے لڑکی کے رواج کو شغار کہا جاتا تھا۔ محمد ﷺ نے جب مدینہ میں اسلام کا قانون نافذ کیا تو شغار کے اس طریقے کو گناہ بتایا اور ہر لڑ کی کی شادی میں اُس کا مہر ادا کرنے کو نکاح کی سب سے اہم شرط قرار دے دیا۔
عیسائی قوم جو دنیا میں مسلمانوں کے مقابلے میں دولت، حکومت اور تعداد کے لحاظ سے برابری کی حیثیت رکھتی تھی، اُن کے یہاں بھی عورتوں کے متعلق نہایت حقیر،گھٹیا اورشرمناک خیالات پائے جاتے تھے۔اُن کے ادب میں ایک کہانی مشہور تھی کہ دنیا میں پہلے صرف مرد تھے، عورتیں تھیں ہی نہیں۔پھر ایک دوشیزہ دنیا میں آئی اور ایک نوجوان کو اُس سے محبت ہو گئی۔وہ دونوں ساتھ رہنے لگے۔دوشیزہ کے پاس ایک صندوق تھا۔ اُس نے مرد ساتھی سے کہا کہ اس صندوق کو کبھی مت کھولنا۔دوشیزہ کی غیر موجودگی میں ساتھی مرد نے صندوق کھول کر اُس کا راز جاننا چاہا۔ صندوق کا کھولنا تھا کہ دنیا میں ہر طرح کی آفت، بلا، پریشانی،تکلیف اور مصیبت کا دورشروع ہو گیا۔یعنی زندگی میں جتنی خرابیاں ہیں وہ سب ایک عورت کی وجہ سے دنیا میں آئیں۔ نہ عورت دنیا میں آتی نہ دنیا کو مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا۔اندازہ کیجئے وہ یورپ جو آج عورتوں کا مسیحا ہونے کا دعویٰ کر رہا ہے اُس کے بڑے بزرگ عورتوں کے متعلق کتنے گھٹیا اورخطرناک نظریات رکھتے تھے۔اورآج بھی اُن کے یہاں جو مذہبی، عبادت گزار اور مذہبی لحاظ سے اونچا آدمی بننا چاہتا ہے اُس کے لئے ضروری ہے کہ وہ شادی نہ کرے۔ زندگی بھر کنوارا رہے۔چنانچہ اُن کے یہاں جو فادر اور برادر یا سسٹرس یعنی مذہبی طبقہ ہوتا ہے وہ سب کا سب کنوارا رہتا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ انسان فطرت سے لڑنے کی ہمت اور حیثیت نہیں رکھتا ہے۔مرد عورت ایک جگہ ہوں اور وہ ایک دوسرے سے مکمل طور پر الگ رہیں ایسا ہو ہی نہیں سکتا ہے۔ چنانچہ اعلیٰ درجہ کے مذہبی ہونے کے باوجود چوری چھپے اُن کے درمیان برائیاں ہوتی رہتی ہیں اور عورتوں کو اُن کے جائز حق سے محروم ہونا پڑتا ہے۔
دنیا کے ایسے ماحول میں جہاں عورت ہر طرح سے مظلوم، پسماندہ،ذلیل اور محروم بنا کر رکھی گئی تھی،نبی ﷺ کے آنے کے بعد وہ سر کا تاج بن گئی۔’’عبد اللہ ابن عمرؓ روایت کرتے ہیں ، رسول اللہﷺ نے فرمایا:دنیا ساری کی ساری ایک پونجی ہے اور اس کا بہترین حصہ ایک صالح عورت ہے۔‘‘ (مسلم)تصور کیجئے کتنی بڑی بات کہہ دی پیارے نبیﷺ نے۔یعنی دنیا کا کاروبار چلانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے مرد کو جو کچھ انعام کے طور پر دیا ہے اُس میں سب سے قیمتی چیز ایک صالح عورت ہے۔صرف عورت نہیں صالح یعنی نیک عورت۔عورت کی تین حیثیت ہوتی ہے بیٹی، بہن،بیوی اور ماں۔ ’’حضرت ابو سعید خُدریؓ روایت کرتے ہیں :رسول اللہﷺنے فرمایا: تم میں سے کسی کے پاس تین لڑکیاں یا تین بہنیں ہوں اور وہ اُن کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو جنت میں ضرور داخل ہو گا۔( ترمذی:۱۹۱۲)’’حضرت انس ؓ روایت کرتے ہیں : رسول اللہ ﷺنے فرمایا جس نے دو بیٹیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ جوان ہو گئیں تو قیامت کے دن وہ آئے گا اور ہم اور وہ اس طرح ہوں گے آپ نے اپنی دو انگلیوں کو ملایا ۔‘‘(مسلم)
پھر تو مسلم معاشرے میں لڑکیوں کو ایسی عزت اور محبت دی جانے لگی جس کی کوئی مثال دنیا کی کسی قوم میں نہیں مل سکتی ہے۔ہر ماں باپ بیٹے کی جگہ بیٹی کی پیدائش کی تمنا کرنے لگے۔ اور پھر پوری دنیا میں صرف اہل ایمان معاشرے میں لڑکی نے اپنا وہ پیدائشی حق پا لیا جو اللہ تعالیٰ نے اُ س کے لئے مقدر کیا تھا۔لڑکی جب بالغ ہوئی اور اُس کا نکاح ہوا تو اُس کے حقوق کی حفاظت کے لئے نبیﷺ نے ایک ایسی بات کہی کہ ہر شوہر اپنی بیوی کے لئے سراپا رحمت و شفقت بن گیا اور بیویاں شوہر کی ظلم و ستم سے نجات پا گئیں۔حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں، رسول اللہﷺ نے فرمایا:تم میں بہترین آدمی وہ ہے جو اپنی بیویوں کے ساتھ بہترین سلوک کرتا ہو، اور میں تم میں کا بہترین آدمی ہوں ، بیویوں کے ساتھ بہترین سلوک کرنے کے لحاظ سے۔(ابن ماجہ:۵۰۸)اب کوئی بھی صالح اور متقی شوہر اپنی بیوی کو اُس کے حقوق سے محروم کر ہی نہیں سکتا تھا۔یہ بات کہہ کر نبیﷺ نے بیوی کا درجہ اتنا اونچا کر دیا کہ دنیا اسے سوچ بھی نہیں سکتی ہے۔کسی بھی شادی شدہ آدمی کے اچھے اور اعلیٰ کردارکا مالک ہونے کی سند دنیا نہیں دے گی بلکہ اُس کی بیوی دے گی۔ بیوی اگر کہتی ہے کہ اُس کا شوہر دنیا کا سب سے اچھا آدمی ہے تو اللہ اور اُس کے رسول اعتبار کریں گے کہ واقعی وہ اچھا آدمی ہے۔اور اگر ایسا نہیں ہے تو ساری دنیا میں شہرت اور نیک نامی پاکر بھی وہ آدمی اچھا آدمی نہیں مانا جائے گا۔
حضرت خدیجہ ؓ شوہر کے انتقال کے بعد بیوہ ہو گئیں۔ اُن کی دوسری شادی ہوئی اور اُس شوہر کا بھی انتقال ہو گیا،وہ دوبارہ بیوہ ہو گئیں۔دنیا میں ایسی عورت سے کون شادی کرے گا جس کا دو شوہر مر چکا ہو ؟ خدیجہﷺ کی عمر چالیس سال تھی اور نبیﷺ کی عمر پچیس سال۔ کوئی بھی کنوارا مرد اپنے سے زیادہ عمر کی بیوہ عورت سے شادی نہیں کر سکتا ہے۔ وہ ایسا سوچ بھی نہیں سکتا ہے۔ مگر جب اُنہوں نے نبی ﷺکے پاس اپنے نکاح کا پیغام بھیجا تواُنہوں نے بلا جھجھک قبول کر لیا۔اس لئے کہ خدیجہﷺ ایک نہایت ہی نیک اوراعلیٰ اخلاق کی مالک تھیں۔اور پھر دونوں نے ایسی خوش گوارزندگی گزاری کہ نبیﷺزندگی بھر اُن کو یاد کرتے رہے۔
حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، رسول اللہﷺنے فرمایا: عورتوں سے چار چیزوں کی بنیاد پر نکاح کیاجاتا ہے۔اُس کی جائیداد کی وجہ سے،اُس کی خاندانی شرافت کے باعث، اُس کے حسن و جمال کے سبب ، اوراُس کی دین پسندی کی بنیاد پر۔تم دین پسند عورت کو حاصل کرو تمہارا بھلا ہو۔ (مسلم) حضرت عبد اللہ ابن عمرؓسے روایت ہے، رسول اللہﷺنے فرمایا:تم عورتوں سے صرف اُن کے حسن وجمال کی بنیاد پر شادی نہ کرو، ہو سکتا ہے اُن کا حسن اُن کو تباہ کر دے۔اور نہ تم اُن سے صرف مال کی بنیاد پر شادی کرو، شاید اُن کا مال اُن کو تمہاری نافرمانی پر آمادہ کر دے۔لیکن تم دین کی بنیاد پر اُن سے شادی کرو۔ چھدے ہوئے کان والی سیاہ فام دین دارباندی(بے دین) خاندانی حسین عورت سے بہتر ہے۔(ابن ماجہ)یعنی نبیﷺنے امت کو صرف یہ حکم ہی نہیں دیابلکہ پہلے خود اس پر عمل کر کے دکھایا۔پھر تو بیوہ ہو جانے والی نیک او ر صالح عورتوں کو بھی زندگی بھر بیوہ رہنے کا خوف نہیں رہا۔
بیٹی اور بیوی کے بعد عورت ماں بن جاتی ہے اور پھر بوڑھی ہو کر معذور ی اور محرومی کی زندگی گزارنے لگتی ہے ۔ اُس بوڑھی بے سہارا عورت کادوسروں کی مدد اور سہارے کے بغیر جینا مشکل ہو جاتا ہے ۔حضرت ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا یا رسول اللہ ! میرے حسن سلوک کا حقدار کون ہے؟ نبیﷺ نے فرمایا تیری ماں، اُس نے پوچھا اُس کے بعد؟نبیﷺ نے فرمایا تیری ماں، اُس نے پوچھا اُس کے بعد ؟نبیﷺ نے فرمایا تیری ماں، اُس نے پوچھا اُس کے بعد؟ نبیﷺ نے فرمایا تیرا باپ،ایک روایت میں ہے، پھر جو زیادہ قریب، زیادہ قریب ہوں۔ (بخاری،مسلم:۴۶۹۲)نبیﷺ نے فرمایا’’جنت ماں کے پیروں کے نیچے ہے۔‘‘ (بخاری)نبیﷺ نے ماںکا حق باپ کے مقابلے میں تین گنا بتا کر مرد پر عورت کی برتری ثابت کر دی۔نبیﷺ کی ان باتوں کے بعدمسلم خاندان میں ماں، خالہ، پھوپھی، ممانی، نانی ،دادی کی حیثیت رکھنے والی بوڑھی بزرگ عورتوں کو دین پسند مسلم خاندان میں وہ قدرو منزلت اور مرتبہ و مقام ملا جودنیا کے کسی مذہب میںنہیں ہے۔خاندان کا ہر فرد اُنکا خادم اور غلام بننے پر فخر کرنے لگا۔
اس کے بعد مدینہ کی عورتوں نے اتنی ترقی کی کہ غزوۂ خندق کے وقتعورتیں جس قلعہ میں تھیں وہ بنو قریظہ کی آبادی سے سٹاہوا تھا۔ یہودیوں نے یہ دیکھ کر کہ سبھی مسلمان حضورﷺ کے ساتھ جنگ میں مشغول ہیںقلعہ پر حملہ کر دیا۔ایک یہودی قلعہ کے پھاٹک تک پہنچ گیا اور قلعہ پر حملہ کرنے کاموقع ڈھونڈ رہا تھا۔حضرت صفیہؓ (حضور ﷺ کی پھوپھی )نے اُسے دیکھ لیا۔عورتوں کی حفاظت کے لئے حسان ؓبن ثابت(شاعر) وہاں متعین کئے گئے تھے۔ حضرت صفیہؓ نے کہا اتر کراسے قتل کر دوورنہ یہ جاکر دشمنوںکو پتادے گا۔حضرت حسانؓ کوایک مرض ہو گیا تھا ، جس کی وجہ سے وہ لڑائی کی طرف نظر اٹھا کر دیکھ بھی نہیںسکتے تھے۔ اس وجہ سے اُنہوںنے معذوری ظاہر کی اور کہا میںاس کام کے لائق ہوتا تو یہاں کیوں ہوتا۔حضرت صفیہؓ نے ایک لکڑی اٹھائی اور نیچے آکر یہودی کے سر پر اس زور سے ماری کہ اُس کا سر پھٹ گیا۔حضرت صفیہؓ نے اُس کا سر کاٹ کر قلعہ کے نیچے پھینک دیا تاکہ یہودی مرعوب ہو جائیں۔حضرت صفیہؓ کے اس مجاہدانہ عمل سے یہودیوں کو یقین ہو گیا کہ قلعہ کے اندر بھی کچھ فوج موجود ہے اس خیال سے اُنہوں نے قلعہ پر حملہ کا ارادہ ترک کر دیا اورعورتوں پر آنے والی آفت ٹل گئی۔
بعد کی دنیا میں خود ہمارے ملک کے اندر مسلم عورتوں نے ایسے ایسے کارنامے انجام دیے جن پر تاریخ کو ناز ہے۔لیکن جب مسلمانوں پر دورو زوال آیا اور دنیا میں عیسائی قوم غالب آ گئی تو اُس نے مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے تاریخ میں ہیرا پھیری کی، جب کہ دنیا میں تاریخ لکھنے کا فن مسلمانوں نے ایجاد کیا۔نبیﷺ سے پہلے کی دنیا کی لکھی ہوئی کوئی تاریخ ہے ہی نہیں۔عیسائیوں نے تاریخ کو تین حصو ں میں بانٹ دیا(۱)قدیم تاریخ: جو لکھی ہوئی ہے ہی نہیں۔آثارقدیمہ سے اُس کے کچھ نشانات ملتے ہیں۔(۲)بیچ کی تاریخ:یعنی اسلامی دور کی تاریخ۔اس کو عیسائیوں نے تاریک دور سے تعبیر کیا۔(۳)جدید تاریخ:اس کا تعلق عیسائی قوم کے دنیا میں عروج سے شروع ہوتی ہے۔اس طرح ان ظالموںنے یہ جھوٹ بات مشہور کر دی کہ ان سے پہلے دنیا میں نہ علم تھا، نہ سائنس تھی، نہ تہذیب و تمدن تھا،انسان جانوروں کی طرح زندگی گزار رہے تھے۔اور یہی سارے الزامات اسلام پر بھی لگائے اوربڑھ چڑھ کر اعلان کیا کہ اسلامی دور میں عورتوں کو غلام بنا کر رکھا گی اور ان کو ترقی کرنے کا موقع دیا ہی نہیں گیا۔اور آج عورتوں کی مردوں سے برابری کے ساتھ مکمل آزادی اور معاشی خود مختاری کا فریب دیاجارہا ہے۔لیکن اس پورے پرپیگنڈے کا جو نتیجہ سامنے آیا ہے اُسے دیکھ کر ہر سمجھ دارآدمی اندازہ لگا سکتا ہے کہ آج کی نام نہاد ترقی یافتہ دنیا میں عورتوں کو جتنا ذلیل کیا جارہا ہے، اُن کی جتنی عزت لوٹی جارہی ہے،کاروبار کی ترقی کے لئے اُن کے حسن و شباب کا جس بے حیائی سے استعمال کیا جارہا ہے، نابالغ بچیوں کی آبرو لوٹی جارہی ہے اور ان مجرموں کو کسی طرح کی سزا نہیں مل رہی ہے۔پچھلے دنوں بھارت کی خواتین پہلوانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا ساری دنیا نے دیکھا کہ اُن کو انصاف نہیں ملا اور اور مجرموں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
انتہائی افسوس کی بات یہ ہے کہ صحیح علم اور جانکاری سے محروم آج کے جاہل مسلمان غیروں کاپروپیگنڈا سن کر اسلام اور اہل اسلام کا دفاع کرنے کی جگہ خود مسلمانوں کوالزام دینے اور اس سے بھی آگے بڑھ کر اسلام کے خلاف بولنے لگتے ہیں۔یعنی کافر اور منکر بن جاتے ہیں۔اسی کو کہا گیاہے کہ:اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔
ٍٍ نئی نسل میں جدید تعلیم کے جنون نے ماںباپ کو اپنے بچوںاور بچیوں کی دینی تعلیم سے غافل کر دیا ہے۔نئی نسل تعلیم حاصل کر کے دنیا اوربہت زیادہ دولت تو کمانا چاہتی ہے لیکن دین و شریعت کے تقاضوں اور ایمان و عمل سے پیدا ہونے والے اعلیٰ اخلاق اور حسین کردار سے محروم رہ جاتی ہے۔نہ اپنے دینی فرائض کو جانتی ہے نہ دوسروں کے حقوق کو پہچانتی ہے۔نتیجہ یہ ہے کہ اس نئی نسل کی محبت اور خدمت سے اس کے والدین بھی محروم ہو رہے ہیں اور دوسرے رشتہ دار، پڑوسی اور جان پہچان والوں کی بھی حق تلفیاں ہو رہی ہیں۔اب نہ جنت میں لے جانی والی بیٹیاں پیدا ہو رہی ہیں نہ شوہر کو اچھائی کا سرٹیفیکیٹ دینے والی بیویاں اور نہ وہ مائیں جن کے قدموں کے نیچے جنت ہوا کرتی تھی۔
کیا عورتوں کی ترقی اور معاشی خود اختیاری کی مالا جپنے والے مسلمان ان سچی اور اصلی باتوں کو جاننے اور سمجھنے اور اسلام پر اعتراض کرنے والوں کو منہ توڑ جواب دینے کی کوشش کریں گے ؟ نہیں ! کیونکہ وہ جن لوگوں کے پیچھے چل رہے ہیں اُن کو نہ اسلام سے کوئی دلچسپی ہے نہ رسول اللہﷺ سے سچی محبت! وہ تو بس رسولﷺکی محبت کے نام پر تماشہ کرنا اور ہنگامہ کرنا جانتے ہیں۔
خود باغباں نے اپنے چمن کو جلا دیا
بد بخت بدنصیب کی حالت نہ پوچھئے