ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے۔محبت رسول ﷺ کے نام پر جو کچھ ہوگا وہ آپ لوگ ایک طویل مدت سے دیکھتے چلے آ رہے ہیں۔کیا کبھی آپ نے سوچا کہ محبت رسولﷺ کے ناما پر جو کچھ کیا جاتا ہے وہ اللہ یا رسول ﷺ کے حکم کے مطابق ہے یا اپنی من مانی ہے۔اگر یہ اللہ اور رسولﷺ کا حکم نہیں بلکہ اپنی من مانی ہے تب تو یہ نیکی نہیں ایسی برائی ہے جو سیدھے جہنم میں لے جائے گی۔چونکہ دین کی صحیح تعلیم دینے کا رواج ختم ہو چکا ہے اس لئے عام طورپر مسلمان دین کی سچی اور اصلی باتیں نہیں جانتے ہیں اور دنیا پرست مولوی دین کے نام پر غلط اور گمراہ کرنے والی باتیں اور اعمال امت کو بتاتے رہتے ہیں۔ اس طرح وہ خود بھی جہنم میں جانے والے بن جاتے ہیں اور اپنے پیچھے چلنے والوں کو بھی جہنم میں بھیجنے کا انتظام کرتے رہتے ہیں۔

آج میں اپنی طرف سے کچھ نہیں لکھ رہا ہوں۔پیارے نبیﷺ کا کیا حکم اور تعلیم و تاکید ہے صرف وہی پیش کر رہا ہوں۔انہیںغور سے پڑھئے اور اپنے آپ سے سوال کیجئے کہ ایک طرف یہ اُس رحمت عالم ﷺ کی باتیں ہیں جو اُنہوں نے امت کو بتائی ہیں اور دوسری طرف دوسروں کی بتائی ہوئی واہیات و خرافات ہیں۔آپ کس کو مانیں گے اورکس کی پیروی کریں گے ؟ یہ فیصلہ خود آپ کو کرنا ہے مجھے نہیں !!
(۱) حضرت عبد اللہؓ ابن عمر ؓروایت کرتے ہیں رسول اللہﷺنے فرمایا :میرے نزدیک تمہاری سب سے پسندیدہ چیز تمہارا اخلاق ہے۔(بخاری)حضرت ابو درداء ؓروایت کرتے ہیں رسول اللہﷺنے فرمایا:مومن کی سب سے بھاری چیز جو میزان میں قیامت کے دن رکھی جائے گی وہ حسن اخلاق ہے اور اللہ تعالیٰ فحش کلامی کرنے والے بد اخلاق انسان سے ناراض ہوتا ہے۔(ترمذی)حضرت ابن عباس ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺنے فرمایا :اچھی سیرت اچھی عادتیں اور میانہ روی نبوت کا پچیسواں حصہ ہیں ۔(ابو داؤد) کیا آپ کا اخلاق ایسا ہے جس کی تعریف کی جائے ؟ کیاآپ نبوت کے پچیسویں حصے کے مالک ہیں ؟
(۲) ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے لوگوں سے پوچھا کیا تم جانتے ہو مفلس کون ہے ؟ ذلوگوں نے کہا مفلس ہمار ے یہا ں وہ شخص کہلاتا ہے جس کے پاس نہ درہم ہو نہ اور کوئی سامان۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا :میری امت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن اپنی نماز، روزہ اور زکوٰۃ کے ساتھ اللہ کے پاس حاضر ہوگا اور اسی کے ساتھ اس نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہوگی،کسی پر تہمت لگائی ہوگی،کسی کا مال مار کھایا ہوگا، کسی کو قتل کیا ہوگا اور کسی کو مارا ہوگا، تو اُن تمام مظلوموں میں اُس کی نیکیاں بانٹ دی جائیں گی، پھر اگر اُس کی نیکیاں ختم ہو جائیں گی اور مظلوموں کے حقوق باقی رہ جائیں گے تو اُن کی خطائیں اُس کے اعمال نامے میں شامل کر دی جائیں گی اور پھر اُسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔(مسلم)کیا آپ اس حدیث کی روشنی میں ان تمام گناہوں اوربرائیوں سے محفوظ اور پاک ہیں؟ اگر نہیں تو کیا آپ کی نماز اورحج حشر کے دن آپ کے کام آئیں گے ؟
(۳) رسول اللہﷺنے فرمایا:دنیا کے سب سے خوش حال جہنم کے مستحق آدمی کو لایا جائے گااور جہنم میں ڈال دیاجائے گا،جب آگ اس کے جسم پر اپنا پورا اثر دکھائے گی تب اس سے پوچھا جائے گا اے آدم کے بیٹے کبھی تو نے اچھی حالت دیکھی ہے ؟ تجھ پر کچھ عیش و آرام کا دور گزرا ہے ؟ وہ کہے گا نہیں تیری قسم اے میرے رب کبھی نہیں! پھر دنیا میں انتہائی تنگی کی حالت میں زندگی گزارنے والے جنت کے مستحق آدمی کو لایا جائے گااور جنت میں رکھا جائے گا۔ جب اس پر جنت کی نعمتوں کا رنگ خوب چڑھ جائے گاتب اس سے پوچھا جائے گا اے آدم کے بیٹے کبھی تو نے دنیا میں تنگی دیکھی ہے؟ کبھی تجھ پر تکلیفوں کا دور آیا ہے؟وہ کہے گا نہیں میرے رب میں کبھی تنگ دستی اور محتاجی میں گرفتار نہیں ہوامجھ پر تکلیفوں کا کبھی کوئی دور نہیں آیا۔(مسلم: طبرانی)
بتائیے حرام مال کما کر دنیا میں عیش وعشرت کی زندگی گزارنا عقل مندی کی بات ہے یا حلال آمدنی پرقناعت کے ساتھ زندگی بسر کرنا ہوش مندی ہے ؟
(۴) حضرت ابوقلابہ ؓ کہتے ہیں،صحابہ میں سے کچھ لوگ نبیﷺ کی خدمت میں اپنے ایک ساتھی کی تعریف کرنے لگے، کہنے لگے ہم نے اپنے فلاں ساتھی کی طرح کسی کو نہیں دیکھا۔ سفر کے دوران یہ قرآن پڑھتا رہتا تھا،جب ہم کسی جگہ پڑاؤ ڈالتے تو یہ نماز میں مشغول ہو جاتا۔ نبیﷺ نے پوچھا اس کے سامانوں کی حفاظت کون کرتا تھا،یہاں تک کہ نبیﷺنے یہ بھی پوچھا کہ اس کے اونٹ کو چارا کون دیتا تھا؟ ہم نے کہا ہم لوگ اس کے سامانوں کی حفاظت کرتے تھے اور اس کے اونٹ کو کھلاتے پلاتے تھے۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:تب تو تم اس تلاوت میں لگے رہنے والے سے بہتر ہو۔ (ابوداؤد)
(۵) ابوہریرہؓ کہتے ہیں،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :ایک آدمی راستے میں جا رہا تھا۔ اس کو بہت زیادہ پیاس لگی۔ اس نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ ایک کنواں نظر آیا، اس نے اس سے پانی نکالا اور پیا۔ پھر اس نے ایک کتے کو دیکھا جو پیاس کی وجہ سے زبان نکالے ہوئے تھا۔ اس نے سمجھ لیا کہ کتے کو بھی ویسی ہی پیاس لگی ہے جیسی اس کو لگی ہوئی تھی۔ اس نے پھر کنویں سے پانی نکالا اور کتے کو پلایا۔اُس کے اِس عمل کی بدولت اللہ تعالیٰ نے اُس کے سارے گناہ معاف کر دیے۔ لوگوں نے پوچھا کیا جانوروں پر رحم کرنے پر بھی ثواب ملتا ہے ؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ہر جاندار پر رحم کرنے پر ثواب ملتا ہے۔ (بخاری، مسلم)
بتائیے اس حدیث رسول کی روشنی میں نفل نماز پڑھنا اور بغیر معنی سمجھے قرآن پڑھنا بڑی نیکی ہے یا لوگوں کی خدمت کرنا بڑی نیکی ہے ؟ پریشان حال حیوان (جانور ) کے کام آنا بھی اتنی بڑی نیکی ہے کہ زندگی کے پچھلے تمام گناہ اللہ معاف کر دیتا ہے۔کیا اس سے پہلے آپ کو یہ بات معلوم تھی ؟
(۶) حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں آدمی اس بات کی پروا نہیں کرے گا کہ اس نے جو مال کمایا ہے وہ حلال ہے یا حرام۔ (بخاری)رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :اللہ تعالیٰ پاک ہے اور وہ صرف پاکیزہ مال کو ہی قبول کرتا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو یہی حکم دیا ہے، جس کا اس نے رسولوں کو حکم دیا ہے۔چنانچہ اس نے فرمایا: اے پیغمبرو! پاکیزہ روزی کھاؤ اور نیک عمل کرو۔ اور مومنوں کو خطاب کرتے ہوئے اس نے کہا کہ اے اہل ایمان جو پاک اور حلال چیزیں ہم نے تم کو بخشی ہیں وہ کھاؤ۔پھر ایک ایسے آدمی کا حضور ﷺ نے ذکر کیا جو لمبی دوری طے کر کے مقدس مقام(خانہ کعبہ) پر آتا ہے، غبار سے اٹا ہوا ہے، گرد آلود ہے اور اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف پھیلا کرکہتا ہے اے میرے رب! اے میرے رب!(اور دعائیں مانگتا ہے) حالانکہ اس کا کھانا حرام ہے ، اس کا پانی حرام ہے، اس کا لباس حرام ہے اور حرام پر ہی وہ پلا ہے تو ایسے شخص کی دعا کیوں کر قبول ہوسکتی ہے۔( مسلم )حضرت جابر ؓ روایت کرتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا :حرام کی کمائی سے پلا ہوا جسم جنت میں نہیں جائے گا۔ ہر وہ جسم جو حرام سے پلا ہے اس کے لئے جہنم کی آگ ہی زیادہ موزوں ہے۔(احمد،دارمی،بیہقی)
اگر آپ حلال ، حرام کے احکام نہیں جانتے اور نہیں جاننے کی وجہ سے آپ کی آمدنی حرام ہے یا حلال کے ساتھ حرام بھی گھر میں آ رہا ہے تو ایسی روزی کھاتے ہوئے کیا آپ کی کوئی عبادت، کوئی دعا قبول ہوگی۔جب آپ کی کوئی عبادت اور دعا قبول ہوگی ہی نہیں تو جہنم میں جانے سے کون بچائے گا ؟
(۷) رسول اللہ ﷺنے فرمایا:رشتہ داروں سے کٹ کر رہنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔(مسلم)
کیا آپ کے تمام رشتہ داروں سے آپ کے تعلقات اچھے ہیں ؟ محتاج رشتہ داروں کی آپ مدد کرتے ہیں ؟ نہیں تو جنت میں کیسے جائیے گا ؟
(۸) حضرت ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں : رسول اللہﷺ نے فرمایا خدا کی قسم وہ مومن نہیں خدا کی قسم وہ مومن نہیں خدا کی قسم وہ مومن نہیں پوچھا گیا کون یا رسول اللہ ؟ آپ نے فرمایا وہ جس کی شرارتوں سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو ۔(بخاری و مسلم )
اگر آپ کا پڑوسی آپ سے خوش نہیں تو نبیﷺ فرمارہے ہیں کہ آپ مومن نہیں ہیں،آپ مومن نہیں ہیں تو جنت میں کیسے جائیے گا ؟
(۹) حضرت ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کسی مسلمان کیلئے جائز نہیں کہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق رکھے۔جس نے تین دن سے زیادہ ترک تعلق رکھا اور مرگیا تو جہنم میں چلا گیا ۔(احمد،ابو داؤد)
اگر آپ فرقہ پرست مسلمان ہیں اوراپنے فرقے والوں کے علاوہ دوسروں کو مسلمان نہیں سمجھتے ہیں تب تو آپ کا رشتہ مسلمانوں سے نہیں ہے۔ سوچئے فرمان رسولﷺ کی روشنی میںاگر اس حالت میں آپ میں سے کسی کی موت ہو گئی تب تو مرنے والا جہنم میں چلا جائے گا !
(۱۰) حضرت علیؓ کہتے ہیں ،میںنے رسول اللہﷺ کو فرماتے سناہے :جومسلمان کسی مسلمان کی صبح کے وقت عیادت کرتا ہے تو ستر(۷۰) ہزار فرشتے شام تک اس کے لئے دعا کرتے رہتے ہیں۔اور جوکسی مسلمان کی شام کے وقت عیادت کرتا ہے تو ستر(۷۰) ہزار فرشتے صبح تک اس کے لئے دعا کرتے رہتے ہیں اور جنت میں اس کے لئے ایک باغ مخصوص کر دیاجاتا ہے۔(ترمذی، ابو داؤد)حضرت انسؓ کہتے ہیں ، رسول اللہﷺ نے فرمایا :جس نے اچھی طرح وضو کیا پھراجر و ثواب کی نیت سے اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کی تو ساٹھ سال کے پیدل سفر کے برابر اسے جہنم سے دور کردیا جائے گا۔(ابو داؤد)
کیا آپ کو ان حدیثوں کا علم تھا ؟ کیا آپ مریضوں کی عیادت کرنے کو عبادت اور نیکی مانتے ہیں ؟ نہیں تو کتنی آسان اور اعلیٰ درجے کی عبادت سے آپ محروم ہیں۔خود بھی اس عبادت کا اہتمام کیجئے اور اپنے گھر والوں اور دوست احباب کو بھی اس کی اہمیت بتائیے۔
(۱۱) حضرت ابی سعید ؓ روایت کرتے ہیں رسول اللہﷺنے فرمایا :امانت دار اور سچا تاجرقیامت کے دن نبیوں،صدیقین اورشہداء کے ساتھ ہوگا۔ (ترمذی)عقبہؓ بن عامرکہتے ہیں رسول اللہﷺ کوفرماتے سنا:مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، جو مسلمان کسی مسلمان کے ہاتھ کوئی چیز بیچے اور وہ عیب دار ہو توعیب کو صاف صاف اس کے سامنے رکھ دے۔(ابن ماجہ)حضرت رفاعہؓ کہتے ہیں ،رسول اللہ ﷺنے فرمایا:تاجر لوگ قیامت کے دن بدکار کی حیثیت سے اٹھائے جائیں گے، سوائے اُن تاجروں کے جنہوں نے اپنی تجارت میںتقویٰ اختیار کیا اور نیکی اور سچائی کا رویہ اپنایا۔(ترمذی)رسول اللہ ﷺنے ناپ اور تول والے تاجروں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:تم لوگ دو ایسے کاموں کے ذمہ دار بنائے گئے ہو جن کی وجہ سے تم سے پہلے گزری ہوئی قومیں ہلاک ہو گئیں۔(ترمذی)
اگر آپ تاجر ہیں تو آپ کو اوپر لکھی ہوئی باتیں معلوم ہونی چاہئیں کہ نبیﷺ تاجروں کے متعلق کیا ہدایات دے رہے ہیں۔تجارت میں سچائی اور امانت داری وہ اعلیٰ عبادت ہے کہ تاجر قیامت میں نبیﷺ کے ساتھ کھڑا ہوگا۔اور بے ایمان تاجر ایسے بدکار کی حیثیت سے اٹھے گا جس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
(۱۲) حضرت عبد اللہ ابن عمر ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری دے دیا کرو ۔(ابن ماجہ)
اگر آپ کارخانے دار یا ٹھیکے دار ہیں تواپنے ماتحت کام کرنے والے مزدوروں کو اُن کا پسینہ سوکھنے سے پہلے آپ اُن کی مزدوری دے دیتے ہیں ؟ اگر نہیں تب تو ایسا کرنا نبیﷺ کے حکم کی نافرمانی کرنا ہے۔کیا نبیﷺ کی نافرمانی کرنے والے جنت میں جائیںگے اور نبیﷺ اُن کی شفاعت کریں گے ؟
(۱۳) حضرت ابن مسعودؓ روایت کرتے ہیں ،رسول اللہﷺ نے فرمایا:جو شخص باطل اور ناجائز کاموں میں اپنے قبیلہ(کنبہ، خاندان، قوم)کا ساتھ دیتا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی اونٹ کنویں میں گر رہا ہو اور وہ اس کی دم پکڑ کرلٹک گیا اور اونٹ کے ساتھ کنویں میں گر گیا۔(ابوداؤد)
آج کل مسلمان ذات برادری کی لعنت میں مبتلا ہیں اور اپنی ذات برادری والوں کی صحیح یا غلط حمایت کرنا، مدد کرنا اور ساتھ دینا فرض سمجھتے ہیں۔جبکہ ایمان والے کی شان یہ ہے کہ وہ حق کا طرف دار ہوتقا ہے اور ظلم اور ناانصافی کے خلاف ہوتا ہے۔حق اور سچائی کے خلاف ظلم اور ناانصافی کی باتوں میں اپنی قوم ، قبیلے، فرقے یا گھر والوں کا ساتھ دینا کتنی بڑا گناہ ہے ، کسی نے آپ کو پہلے بتایا تھا ؟ اگر نہیں تو اب تو آپ جان گئے،نہ خود ایسا کیجئے نہ دوسروں کو کرنے دیجئے۔
(۱۴) ایک دن رسول اللہ ﷺ نے وضو کیا تو آپ کے کچھ اصحاب آپ کے وضو کا پانی لے کر چہرے پر ملنے لگے۔آپ نے پوچھا تمہارے اس عمل کا محرک کیا ہے؟ لوگوںنے کہا اللہ اور اس کے رسول کی محبت۔نبی ﷺنے فرمایا:جن لوگوں کو اس بات سے خوشی ہو کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کریں تو انہیں چاہئے کہ جب بات کریں تو سچ بولیں،اور جب ان کے پاس امانت رکھی جائے تو اس کو(بہ حفاظت )اس کے مالک کے حوالہ کردیں، اور پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔(مشکوٰۃ:عبدالرحمن بن ابی قرادؓ)غور فرمائیے،موئے مبارک کی زیارت کرنا، قدم رسول کی زیارت کرنا،رسالت کا نعرہ لگانا، جھنڈا پھیلانا اور جلوس نکالنا اصل محبت رسول ہے یا اوپر جو باتیں نبیﷺفرمارہے ہیں، وہ محبت رسول کی ضمانت اور شہادت ہیں ؟ اللہ تعالیٰ کا اعلان ہیـ:
امیری اور غریبی زندگی کی ایسی دھوپ چھاؤں ہے جو اول روز سے ہی انسانوں کے ساتھ لگی چلی آر ہی ہے اور اس نے آج تک انسانوں کا پیچھا نہیں چھوڑا۔تاریخ کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ خدا فراموش دولت مند لوگوں نے ہمیشہ غریبوں اور ضرورت مندوں کو حقیر نگاہوں سے دیکھا، اُن کی غربت کا مذاق اڑایا اور اُن کی مجبوریوں کا ضرورت سے زیادہ ناجائز فائدہ اٹھایا ہے۔دولت کے تکبر اور غرور نے اُن کو انسان دشمنی کے اس مرض میں مبتلا کر دیا کہ اُنہوں نے انسانوں کی مجبوری سے صرف ناجائز فائدہ ہی نہیں اٹھایا بلکہ اُن کو غلام بنانا اور اُن کو خریدنا اور بیچنا شروع کر دیا۔زر خرید غلاموں کی ایک نسل پیدا ہو گئی جس کا کام ہی اپنے تمام انسانی حقوق سے محروم رہ کر دولت مندوں کی خدمت کرنا تھا۔
ہندوستان کے اندر غریب لوگ اپنی غربت سے تنگ آ کر اپنے بچوں کو زمینداروں اور دولت مند لوگوں کے ہاتھوں بیچ دیا کرتے تھے اور وہ بچے زندگی بھر بندھوا مزدور بن کر امیروں کی غلامی کرتے رہتے تھے۔وقت اور حالات بدل گئے اور دنیا کا قانون بدل گیا لیکن غریبوں کے ساتھ کی جانے والی یہ نا انصافی آج بھی مختلف دوسری شکلوں میں موجود ہے اوردولت مند لوگ آج بھی غریبوں کا استحصال کر رہے ہیں۔یہ گھناؤنا جرم اب صرف افراد ہی نہیں کر رہے ہیں بلکہ ترقی یافتہ قومیں اور ملک بھی غریب قوموں اور ملکوں کے ساتھ کر رہے ہیں۔غریب قومیں اور ممالک اگر اپنی غربت سے نجات پانے کے لئے کوئی تدبیر کرنا چاہتے ہیں تو مغربی ترقی یافتہ ممالک اپنی سازشوں سے اُن کی تدبیروں کو ناکام بنا دیتے ہیں اور اس بات کی بھر پور کوشش کرتے ہیں کہ یہ قومیں ہمیشہ غریب رہیں اور اُن کی تابع داری کرتی رہیں۔
پوری انسانی تاریخ میں صرف ایک وقت ایسا آیا جب انسانیت کے مسیحا اور نجات دہندہ نے ،جنہیں دنیا یتیموں کے والی، غلاموں کے مولیٰ، فقیروں کے ملجا، ضعیفوں کے ماویٰ، محسن انسانیت اور رحمت عالم ﷺکے نام سے جانتی ہے، غریب، ناتواں، پسماندہ اور بیکس لوگوں کی دستگیری کی اور اُنہیں اُن کا جائز مقام اور حق دلایا۔ سرکار دو عالم ﷺ نے اس کام کے لئے صرف قانون ہی نہیں بنایا اور صرف وعظ و نصیحت اور درس ی نہیں دیا بلکہ اپنے بہترین عمل سے خود بھی اس کا مثالی نمونہ پیش کیا اور ایک ایسی امت پیدا کردی جو قیامت تک اُن کے نقش قدم پر چلتی ہوئی غریب ، ضرورت مند ،بیکس اور مجبور انسانوں کے ساتھ حسن سلوک کرتی رہے گی اور اُن کی خدمت کو اپنے لئے باعث نجات و فلاح سمجھتی رہے گی۔سرور کائنات ﷺنے اس عمل کو ایمان، نیکی اور آخرت کی نجات سے جوڑ کر اس کو لازوال بنا دیا۔
پچیس سال کا ایک نوجوان جس کے لئے معاشرے کے بہترین خاندانوں سے اور حسین ترین دوشیزاؤں سے رشتہ آ ر ہا ہو، جس کی خدمت میں سماج کے سرداران یہ پیش کش کر رہے ہوں کہ اگر آپ چاہیں تو ہم اپنے علاقے کی حسین ترین دوشیزہ کو آپ کی زوجیت میں حاضر کر دیں ،ایسے تمام رشتوں کو ٹھکرا کر چالیس سال کی ایک بیوہ سے نکاح کر لیتا ہے ۔کیا دنیا میں بیوہ عورت سے ہمدردی اور محبت کی ایسی کوئی مثال پیش کی جا سکتی ہے۔ایسا عمل صرف دولت کا لالچی آدمی ہی کر سکتا ہے اور جب ایسے لالچی آدمی کا مقصد پورا ہو جاتا ہے تو وہ اپنی شریک حیات کے ساتھ جیسا سلوک کرتا ہے اس سے بھی زمانہ خوب اچھی طرح واقف ہے۔مگر اس رحمت مجسم ﷺنے اپنی بیوہ شریک حیات کوجو شفقت اور محبت دی اُس کی مثال اور نظیر نہیں لائی جا سکتی ہے۔بیوہ سے ہمدردی جتا نا ایک بات ہے اور ایک نوجوان کا ایک عمر رسیدہ بیوہ سے شادی کرلینا ایک بالکل دوسری بات ہے۔ بیوہ کی عظمت اور اُس کے وقار کو نبی ﷺ کے حسن عمل نے چار چاند لگا دیا۔
بچپن میں ہی حضرت زیدؓ کو چرا کر لوگوں نے بیچ دیا اور وہ حضرت خدیجہ ؓ کی خدمت میں آ گئے۔دنیا کی مثالی بیگم نے اپنے اس غلام کو اپنے سرتاج کی خدمت میں تحفے کے طور پر پیش کر دیا۔حضرت زیدؓ کے والدین کو اُن کا پتہ چل گیا اور وہ اپنے بچے کو ہر حال میں واپس لینے مکہ آئے۔اُنہوں نے نبی ﷺ سے کہا کہ آپ جو چاہیں قیمت لے لیں اورہمارا بچہ ہمیں واپس کر دیں۔نبیﷺنے اُن کی پیشکش کے جواب میں فرمایا کہ میں کسی کو خودسے جدا نہیں کر تا ہوں۔زید کو اختیار ہے وہ چاہے تو میرے ساتھ رہے اور چاہے تو اپنے والدین کے ساتھ چلا جائے۔کیا آپ نے کہیں سنا ہے کہ ایک چھوٹی عمر کا لڑکا جو اپنے والدین، خاندان اور وطن سے بچھڑ گیا ہو،ایک گھر میں غلام کی حیثیت سے رہ رہا ہو اور جب اُس کے گھر والے اُسے لے جانا چاہیں تو وہ انکار کر دے اور اپنے آقا کے ساتھ رہنا پسند کرے۔حضرت زیدؓ نے اپنے والدین سے کہہ دیا کہ وہ محسن انسانیت ﷺکو نہیں چھوڑ سکتے۔ایسا ہونے کی واحد وجہ یہ تھی کہ نبیﷺ کا حضرت زیدؓ کے ساتھ ایسا مشفقانہ برتاؤ اور سلوک تھا کہ جس کا وہ اپنی زندگی میں تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ اس واقعہ کے بعد نبیﷺ نے حرم شریف میں آ کر یہ اعلان کر دیا کہ سنو آج سے زیدؓ میرا بیٹا ہے گویا اُنہوں نے اُن کو گود لے لیا۔
حضرت انسؓ بھی حضور ﷺکی خدمت میں آپ کے ملازم کی حیثیت سے رہا کرتے تھے۔اُن کا بیان ہے کہ نبیﷺ نے کبھی اُن پر کوئی حکم نہیںچلایا، کبھی اُن سے خفا نہیں ہوئے اورکبھی اُن کو نہیں ڈانٹا۔ اپنے غلام اور ملازم کے ساتھ حسن سلوک کی ایسی مثال کیا کہیں پائی جاتی ہے ؟
ایک یتیم بچے کا مال ابو جہل نے ہڑپ کر رکھا تھا اور وہ بچہ اپنا حق اُس ظالم سے وصول کرنے کی طاقت نہ رکھتا تھا۔ اُس بچے نے قریش کے سرداروں سے فریاد کی اور مدد کی درخواست کی۔ اُن شریر لوگوں نے اُس بچے کی مدد کرنے کی بجائے گمراہ کرنے کے لئے نبی ﷺکی طرف اشارہ کر دیا اور بچے سے کہا کہ جاؤ اور اُن سے مدد کی درخواست کرو ۔ وہی بیکسوں اور بے بسوں کے مددگار اور ہم نوا ہیں۔ معصوم بچہ اُن کی شرارت سے بے خبر سادگی میں اُن کے پاس پہنچ گیا۔نبی ﷺ اُس وقت ہر اعتبار سے کمزور تھے اور قریش کے سرداروں کے مقابلے میں کوئی طاقت نہیں رکھتے تھے پھر بھی جب اُس بچے نے فریاد کی تو یتیموں کے والی نے فوراً اُس کی مدد کا فیصلہ کر لیا اور ابو جہل کے پاس جا کر اُس سے کہا کہ اس یتیم کا حق اسے دے دو۔اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی مدد کی اور ابو جہل نے بے چوں چرا اُن کے حکم کی تعمیل کر دی۔وہ بچہ انتہائی خوش ہو گیا اور زندگی بھر کے لئے نبیﷺ کا احسان مند ہو گیا۔جن لوگوں نے شرارت سے یہ مشورہ دیا تھا وہ اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔یتیموں کی مدد کے لئے تقریریں کرنا، اُن کی ہمدردی میں بیانات دینا، اُن کی فلاح کے لئے قانون بنانا ایک بات ہے اور عملاً اُن کی مدد کرنا اور اُن کے مسائل حل کرنا ایک دوسری بات ہے۔محسن انسانیت ﷺ نے اپنے حسن عمل سے اس کی جو مثالیں قائم کی ہیں کیا پوری دنیائے انسانیت اس کی کوئی مثال پیش کر سکتی ہے۔اور کیا آج کے عاشقان رسول نبیﷺ کی ا س سنت کی پیروی کرنے کی ہمت کر پائیں گے ؟
قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ خالق کائنات نے کسی کو زیادہ روزی اورکسی کو کم روزی دی ہے۔(الرعد:۲۶-عنکبوت:۶۲)ایسا اکرنے کی حکمت وہ یہ بیان کرتا ہے کہ اگر لوگ غریب نہ ہوتے تو انسانی خدمت کا وہ کام جو غریب لوگ کرتے ہیں نہیں ہوپاتا اور انسانی معاشرہ نہ زندہ رہ پاتا اور نہ ترقی کر پاتا۔ امیری ا ور غریبی کے اس فطری فرق کو کسی مصنوعی طریقے سے ختم نہیں کیا جا سکتا ہے۔جن لوگوں نے اس کی کوشش کی وہ اپنی اس کوشش میں ناکام ہو گئے اور اس مسئلہ کو حل نہیں کر سکے۔ہر غریب کو امیر بنا دینا ممکن بھی نہیں ہے۔اصل چیز یہ ہے کہ جو لوگ معذور، غریب اور بے کس ہیں اُن کی عزت نفس کو ٹھیس نہ پہنچے، اُن کو احساس محرومی نہ ہو اوراُن کے اندر پسماندہ رہنے کا جو تصورہے اُس کو ختم کیا جائے ۔ ان کی تمام جائز بنیادی ضروریات کی تکمیل کا بندو بست کیا جائے۔اور اُن کو بھی زندگی کی دوڑ میں حصہ لینے اور آگے بڑھنے کا پورا موقع فراہم کیا جائے۔یہی وہ ممکن اور ضروری مدد اور تعاون ہے جو غریب طبقہ کے ساتھ کیا جاسکتا ہے اور کیا جا نا چاہئے۔
قرآن نیک اور صالح بندوں کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’ جن کے مالوں میں سائل اور محروم کا ایک مقررحق ہے ‘‘ (المعارج: ۲۴/ ۲۵ ) حق کامطلب یہ ہوا کہ ہر دولت مند آدمی اپنے مال میں سے غریبوں اور ضرورت مندوں کو جو کچھ دیتا ہے وہ اُس کا کوئی احسان نہیں ہے بلکہ یہ تو اُس غریب کا حق ہے جو اُس کے پاس آ گیا ہے۔ اُس کی ایمانداری اور دیانت داری کا تقاضہ ہے کہ وہ اُس غریب کا حق فوراً ا داکرے۔اس اصول پر عمل کرنے سے غریب امیر کی مدد کا احسان مند نہیں بنتا اور امیر غریب پر احسان نہیں جتا سکتا۔
قرآن کے اس حکم کا انکار اور اس پر عمل سے بیزاری وہی لوگ کر سکتے ہیں جو قرآن پر ایمان نہیں رکھتے اور آخرت کے بھی منکر ہیں۔ قرآن دوسری جگہ کہتا ہے ’’تم نے دیکھا اُس آدمی کو جو آخرت کی جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے،وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کا کھانا دینے پر نہیں اکساتا‘‘۔ (التین:۱تا۳)اس بیان سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ غریبوں کا حق ادا نہ کرنا آخرت کے انکار سے تعبیر کیا جائے گا وہیں ہر انسان کو صرف اپنی حد تک غریبوں کا حق ادا نہیں کرنا ہے بلکہ معاشرے کو اس بات پر اکسانا اور آمادہ کرنا ہے کہ وہ مسکین کو کھانا کھلائے۔ یعنی اُس کی تمام ضرورتوں کو پورا کرے۔
قرآن میں ذکر ہے:جوجنتوں میں ہوں گے وہاں وہ مجرموں سے پوچھیں گے تمہیں کیا چیز جہنم میںلے گئی ؟ وہ کہیں گے ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہ تھے اور مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے اور حق کے خلاف باتیں بنانے والوں کے ساتھ مل کر ہم بھی باتیںبناتے تھے۔(المدثر:۴۰تا۴۵) ۔
رسول رحمت ﷺ کی شریعت جہاں ایک طرف انسان کو خدا کا انتہائی عبادت گزار بندہ بناتی ہے وہیں انسانیت کی خدمت اور مجبور انسانوں کی خبرگیری اور امداد و تعاون پر بھی ہمہ دم آمادہ کرتی ہے۔رسول اللہ ﷺ نے بیوہ یتیم اور ضرورت مند کی امداد کی کتنی فضیلت بتائی ہے اس کا اندازہ اس حدیث سے کیا جا سکتا ہے ۔حضرت ابو ہریرہؓ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: محتاج و نادار لوگوں کے لئے دوڑ دھوپ کرنے والا، اس آدمی کی طرح ہے جو اللہ کی راہ(جہاد) میں سرگرمی دکھا رہا ہے۔(راوی کا بیان ہے)میرا خیال ہے کہ آپ نے فرمایا:ایسا آدمی اس تہجد گزار کی طرح ہے جو نوافل کی ادائیگی سے تھکتا نہیں ہے، یا اس روزہ دار کی طرح ہے جو روزے رکھنا نہیں چھوڑتا۔(بخاری و مسلم)
ایک عبادت گزار انسان اپنی عبادت سے صرف اپنی ذات کو فائدہ پہنچا تا ہے۔خدا کی بارگاہ کے علاوہ دنیا میں بھی اپنی عبادتوں کی وجہ سے نیک نامی حاصل کرتا ہے مگر اُس کی عبادتوں سے دوسرے لوگوں کو، کوئی فائدہ نہیں پہنچتاہے۔ اس کے مقابلے میں ایک ایسا انسان جو عبادت تو معمول کے مطابق کرتا ہے مگر ساتھ ساتھ خدا کے بندوںکی خدمت اور اُن کی مشکلیں آسان کرنے میں ہر وقت لگا رہتا ہے اُس کا درجہ خدا اور رسول کی نگاہ میں بھی اونچا ہوجاتا ہے اور دنیا کے لوگوں کے لئے بھی وہ رحمت اور برکت ثابت ہوتا ہے۔عبادت گزار انسان ہمیشہ رات بھر جاگ کر نماز ادا نہیں کر سکتا ہے اور نہ زندگی بھر روزہ رکھ سکتا ہے۔لیکن خدمت خلق کرنے والا ایک انسان اپنی انسان دوستی اور غرباو مساکین کی ہمدردی اور مدد کی بدولت اس مرتبہ و مقام پر پہنچ جا تا ہے۔ صدقہ کی اہمیت کا اندازہ کیجئے:حضرت عقبہ بن عامرؓ کہتے ہیں،میں نے سنا رسول اللہﷺنے فرمارہے تھے : قیامت کے دن حساب کتاب ختم ہونے تک بندہ اپنے صدقہ کے سایے میں رہے گا۔(مسند احمد)
شریعت سے واقف اورقر آن کو سمجھ کر پڑھنے والا مسلمان جانتا ہے کہ حشر کا میدان وہ جگہ ہے جہاں کوئی کسی کو نہیں پوچھے گا۔اور اللہ کے سایے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔ہر انسان اپنے پسینے میں سر سے پاؤں تک ڈوبا ہوا ہوگا۔رشتے دار اور دوست احباب غیر اور اجنبی بن جائیں گے۔ایسی حالت میں صدقہ دینے والا اطمینا ن سے با حفاظت اللہ کے سایے میں جنت کا پروانہ ملنے کا انتظاار کر رہا ہوگا۔مگر یہ خوش نصیبی اُن لوگوں کو میسر نہیں ہوگی جو نہ صدقہ دیتے ہیں نہ محتاجوں اور معذوروں کی اپنے مال سے مدد کرتے ہیں۔
کی محمدسے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں