موجودہ دور کے مسلمانوں نے قرآن سے رشتہ توڑ کر اُس کا انکار کیا،اللہ کی نافرمانی کی اور قرآن کا مذاق اڑایا۔اور اس طرح اللہ تعالیٰ کو چیلنج کیا کہ ہم بالکل ڈھیٹ بن کر تیری نافرمانی کرنے پر آمادہ ہیں ،تو ہمارا جو بگاڑناچاہتا ہے بگاڑ لے۔ ان نادانوں اور بد عقلوں کو یہ بھی یاد نہیں رہا کہ قرآن میں موجودہ دور کے انسانوں کو سمجھانے کے لئے پچھلی کئی ایسی قوموں کے قصے بیان کئے گئے ہیں جنہوں نے اللہ کی او ر اپنے نبی کی نافرمانی اور انکار پر ڈھیٹ بننے کا جرم کیا تھا اور اللہ نے اُن کو یہ سزا دی کہ زمین سے اُن کا نام و نشان مٹا دیا۔
مسلمان اگر قرآن کو سمجھ کر پڑھتے اور اس پر غور و فکر کرتے تو اُن کو سمجھ میں آتا کہ قرآن کا نزول تو مکہ میں شروع ہوا تھا اور بہت بڑا حصہ مدینہ میں نازل ہوا۔قرآن جس طرح نازل ہوا ہے نبی ﷺ نے اُس کو اُسی ترتیب میں کیوں نہیںمرتب کیا۔ یعنی مکہ والی آیتیں اور سورتیں پہلے ہوتیں اور مدینہ والی آیتیں اور سورتیںبعد میں ہوتیں۔قرآن کی ترتیب میں اس کا لحاظ کیوں نہیں رکھا؟ لیکن قرآن خود اس کی گواہی دے رہا ہے کہ نبی ﷺ اپنی خواہش سے کچھ نہ کہتے ہیں نہ کرتے ہیں بلکہ ہر بات اور کام اللہ کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے کرتے ہیں تو قرآن کی موجودہ ترتیب بھی اللہ کے حکم سے ہی کی گئی ہے۔
اگر ایسا ہے تو پھر سورتوں اور آیات کی ترتیب میں یہ الٹ پھیر کس حکمت کے تحت کی گئی ہے ؟ اس نکتہ پر غور کرنے سے قرآن اپنے پڑھنے والوں کوسوال کے جواب تک پہنچاتا اور وہ اپنی ذات ، اپنی نسل اوردنیا کے انسانوں کے دشمن نہ بن پاتے۔
جب قرآن نازل ہو رہا تھا تو دنیا میں اہل ایمان نام کا کوئی گروہ نہیں تھا۔دنیا میں جتنے لوگ تھے سب مسلم اور مومن ہی تھے کیونکہ اللہ نے ہر قوم کی ہدایت کا انتظام کیا ہے۔’’ہر امت کے لئے ایک رسول ہے، پھر جب کسی امت کے پاس اُس کا رسول آ جاتا ہے تو اُس کا فیصلہ پورے انصاف کے ساتھ چکا دیا جاتا ہے اور اُس پر ذرّہ برابر ظلم نہیں کیا جاتا۔‘‘(یونسـ۴۷)’’ہر قوم کے لئے ایک راہ دکھانے والا ہے۔ــ‘‘(الرعد:۷)لیکن سبھوں نے اللہ کا ، رسول کا اور کتاب کا انکار کر کے کفر ، شرک ، ظلم اور نافرمانی کا راستہ اپنا لیا تھا اورمجرم کی حیثیت سے جی رہے تھے۔اس لئے قرآن جب نازل ہونا شروع ہوا تو سب سے پہلے انسانوں کا عقیدہ درست کیا گیا ۔ چھوٹی چھوٹی سورتوں میںایمان اور عقیدے سے متعلق احکام مکہ کی زندگی میںتیرا سال تک نازل ہوتے رہے جن کو مکی سورتیں یا آیتیں کہا جاتاہے۔پھر جب نبیﷺ ہجرت کر کے مدینہ پہنچے اور وہاں اُنہوں نے ایک اسلامی سماج اور قرآنی قانون نافذ کردیا، تب اللہ تعالیٰ نے سماج اور قانون کے متعلق سورتیں اور آیتیں نازل کرنی شروع کیں جن کو مدنی سورتیں یا آیتیں کہا جاتا ہے۔
پھر مدینہ میں دس سالوں کی محنت کے بعد ایک مسلم سماج قائم ہو ا،اور اسلامی قانون پر عمل کرنے والی ریاست خلافت کے نام سے قائم ہو گئی اور تیس برسوں تک شاندار طریقے سے کام کرتی رہی۔ دنیا والے اس کی رحمت سے فیض یاب ہوتے رہے ۔تب تک قرآن کی ترتیب نبی ﷺ اُس طرح سے کر چکے تھے جیسا کہ آج قرآن کے اندر موجود ہے۔چنانچہ قرآن میں سورہ فاتحہ کے بعد سب سے پہلے سورہ البقرہ اور سورہ آل عمران رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں یہودی قوم کی نافرمانیوں کے متعلق بتایا گیا جس کے سبب وہ قوم اللہ کے عذاب کا شکار بن گئی تھی۔یوسف علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام کی اس قوم کا نام اللہ نے بنی اسرائیل رکھا تھا لیکن ان لوگوں نے نافرمانی کرتے ہوئے اپنا نام ہی بدل لیا۔’’ان سے کہو ، اے لوگو جو یہودی بن گئے ہو، اگر تمہیں گھمنڈ ہے کہ باقی سب لوگوں کو چھوڑ کر بس تم ہی اللہ کے چہیتے ہوتو موت کی تمنا کرو اگر تم اپنے اس گھمنڈ میں سچے ہو۔()لیکن یہ ہرگز اس کی تمنا نہ کریں گے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے جو یہ کر چکے ہیں، اور اللہ ان ظالموں کو خوب جانتا ہے۔‘‘(الجمعۃ:۶/۷)ان کو اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا کی قوموں پر فضیلت دی تھی:’’اے بنی اسرائیل ! یاد کرو میری اُس نعمت کو، جس سے میں نے تمہیں نوازا تھا اور اس بات کو کہ میں نے تمہیں دنیا کی ساری قوموں پر فضیلت عطا کی تھی۔‘‘ (البقرہ: ۴۷ ) لیکن اس بدمعاش قوم نے بدلے میں جو کچھ کیا اُس کو بھی قرآن میں نقل کیا گیا ہے:’’………آخر کار نوبت یہاں تک پہنچی کہ ذلت و خواری، مسکنت وبد حالی اُن پر مسلط ہو گئی اور وہ اللہ کے غضب میں گھر گئے۔یہ نتیجہ تھا اس کا کہ وہ اللہ کی آیات کا کفر کرنے لگے اور پیغمبروں کو ناحق قتل کرنے لگے۔ یہ نتیجہ تھا اُن کی نافرمانیوں کااور اس بات کا کہ وہ شریعت کی حدوں سے سے نکل نکل جاتے تھے۔‘‘(البقرہ:۶۱)پھر اس قوم نے اپنے گناہوں کی معافی مانگی اور سیدھی راہ اپنائی تو اللہ تعالیٰ نے پھراُس کو حکومت اورطاقت سے نوازا اورجینے کا موقع دیا۔
نبی ﷺ نے بھی آنے والے زمانے کے متعلق تفصیل سے بتایا کہ آہستہ آہستہ دنیا میں بگاڑ آتا جائے گا یہاں تک کہ مسلمان وہ تمام برائیاں کرنے لگیں گے جو یہودی قوم نے کیا تھا اور مسلم نام کی ملت اللہ کی نافرمانی اورگناہ کرنے میں یہودیوں سے بھی آگے بڑھ جائے گی۔
زیاد بن لبید ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قیامت کے فتنوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسا اُس وقت ہو گا جب علم اٹھا لیا جائے گا۔اس پر میں نے کہا ا ے اللہ کے رسول ﷺ! علم کیوں کر اٹھ جائے گا جب کہ ہم لوگ قرآن پڑھ رہے ہیں اور اپنی اولاد کو پڑھا رہے ہیںاور ہماری اولاد اپنی اولاد کو پڑھاتی رہے گی۔ حضور ﷺ نے فرمایا اے زیاد میں تو تمہیں عقلمند سمجھتا تھا،کیا تم نہیں دیکھتے کہ یہودو نصاریٰ تورات اور انجیل کو صرف پڑھتے ہیں ان کی تعلیمات پر کچھ بھی عمل نہیں کرتے۔ (ابن ماجہ)حضرت عبد اللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: قیامت کے ظہورسے پہلے چند چیزیں پھیل جائیں گی:(۱)خاص لوگوں سے سلام وکلام ہوگا۔ (۲)کاروبار اتنا پھیلے گا کہ عورت کواپنے شوہر کی مدد کرنی پڑے گی۔ (۳)قطع رحمی ہونے لگے گی۔(۴)علم اور تعلیم کا چرچا خوب ہوگا لیکن شرافت، تہذیب اور اخلاق کا معیار پست ہو جائے گا۔(۵)جھوٹی گواہی عام ہو جائے گی۔(ادب المفرد)رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں آدمی اس بات کی پروا نہیں کرے گا کہ اُس نے جو مال کمایا ہے وہ حلال ہے یا حرام۔ (بخاری)قرآن میں سب سے اہم اور ضروری حکم معروف اور منکر کا ہے۔پھر سماجی انصاف کا ہے۔ انسانیت کی بھلائی اور خدمت کو اعلیٰ درجہ کی عبادت بتایا گیا ہے۔لیکن موجودہ دور کے مسلمان ان تینوں میدان میں مکمل طورپر نکمے اور ناکارے ثابت ہو چکے ہیں۔خاندان، محلے ، بستی اور سماج میں جب ظلم، گناہ،حق تلفی اور ناانصافی ہونے لگے تو یہ ایسی چھوت کی بیماری ہے جو علاج نہیں کرنے سے بڑھتی چلی جائے گی اور پورے انسانی سماج کو تباہ و برباد کر کے رکھ دے گی۔
یہودی قوم جو انسانوں کی دشمن ہے اوراپنے سوا کسی کا بھلا کرنا ہی نہیں چاہتی ہے اُس نے سب سے پہلے عیسائی قوم کو اُلّو بنایااور اُس کو غلام بنا کر ساری دنیا پر حکومت کرنے لگی۔اور عیسائیوں کو مسلمانوں کا دشمن بنا کر اُس اسلام کوکمزور اور ناکام بنانے کا گھناؤنا گناہ کیا جو آخری نبی ﷺکے ذریعہ دنیا والوں کی فلاح و بہبود کے لئے اللہ نے نازل کیا تھا۔یہودیوں نے زبردست منصوبہ بندی کے ساتھ کارپوریٹ ورلڈ تیار کیااوراُس کے ذریعہ ساری دنیا کو اپنا غلام بنالیا۔اب پوری دنیا میں کارپوریٹ ورلڈ کی حکومت ہے۔کارپوریٹ ورلڈ کامقصد یہ ہے کہ سرمایہ داری کے حقوق کی مکمل حفاظت کی جائے اور اُس کو پھلنے پھولنے کے تمام مواقع مہیا کئے جائیں ۔اور دنیا کی انسانی آبادی کو اتناکمزور،مجبور، بے بس اورلاچار بنا دیا جائے کہ کارپوریٹ ورلڈ اس آبادی کو جس قدر سستے داموں میں اور جس قدر استحصال کرتے ہوئے اُن کو استعمال کرنا چاہے کرے۔
یہودیوں کو ہمیشہ خطرہ اسلام سے رہا ہے کہ اگر اہل اسلام نے دنیا میں عدل و انصاف اور امن و چین نیز پسماندہ طبقات کی فلاح وبہبود کا کام شروع کر دیا تو اُن کی ساری کاری گری دھری کی دھری رہ جائے گی۔اس لئے اُنہوں نے خاص طور پر مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے پر توجہ دی۔اُن کو خوب اچھی طرح معلوم تھا کہ مسلمانوں کی اصل طاقت قرآن کی تعلیمات میں ہے۔جب تک مسلمانوں کو قرآن سے دور اور غافل نہیں کیا جائے گا مسلمانوں پر قابو پانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔اُنہوں نے عیسائیوں کے درمیان اسلامی تعلیم کا پروگرام چلا کر ایسے ایسے قابل افراد پیدا کئے جواسلامی علوم کے ماہر بن گئے۔لیکن اُن کا مقصد اسلام کی خدمت کرنا نہیں تھا۔قرآن ، حدیث، فقہ اور تاریخ کی باتوں کو ایک دوسرے میں خلط ملط کر کے غلط فہمیوں کا پہاڑ کھڑ اکرنا تھا۔اُن کی لکھی ہوئی کتابوں کا معیار تحقیقی لحاظ سے بہت شاندار تھا۔مسلمانوں کا خوش حال انگریزی پڑھا لکھا طبقہ جو دین اسلام کی تعلیمات سے ناواقف تھا اُن کتابوں کو پڑھ کر اسلامی تعلیمات میں شکوک و شبہات کا شکار بن گیا اور اسلامی احکام پر اعتراض کرنے لگا۔
دوسری طرف انہوں نے مسلمانوں کے درمیان دولت کے لالچی اور دنیا کی ہوس رکھنے والے عالم ،فاضل، حافظ اور قاری کو دولت کا لالچ دے کر خریدا اور اُن کے ذریعہ مسلمانوں میں یہ بات مشہور کرنی شروع کی کہ قرآن کو پڑھ کر سمجھنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہے۔یہ کام تو صرف عالم فاضل لوگ یا عربی زبان جاننے والے یا ۱۴ طرح کے علوم جاننے والے ہی کر سکتے ہیں۔ عام مسلمان بغیر سمجھے اس کو پڑھتے رہیں، اس کے ہر حرف پر دس نیکی ملتی ہے۔ جن بزرگوں نے قرآن کا ترجمہ اور تفسیر لکھ کر مسلمانوں کی ہدایت کا سامان کیا اُن کے خلاف ان جاہل مولویوں نے کفر اور گمراہی کا فتویٰ جاری کیا اور مسلم عوام کو ان کے ترجمے اور تفسیر پڑھنے سے روکنے لگے۔اس طرح اسلام دشمنوں نے زبردست منصوبہ بندی کے ساتھ مسلمانوں کو اُن کے مذہبی طبقے کے ذریعے قرآن سے دور کردیا۔اور مسلمان عوام اور علما اسلام اور قرآن کے خاص احکام جیسے معروف اور منکر، عدل و انصاف،انسانی مساوات،بندگان خدا کی خدمت،آپس میں اتحاد و یک جہتی اورمحبت و خیر خواہی کی جگہ فرقہ پرستی اور بیکار کی باتوں کو اہمیت دے کر اُن کی بنیاد پر مسلمانوں میں تفرقہ بازی کی آگ اتنی شدید بھڑکائی کہ اُس کی تپش آج تک محسوس کی جارہی ہے۔
بیسویں صدی میں اللہ نے مولانا مودودیؒ کو اپنے کام کے لئے پیدا کیا اور اُنہوں نے اپنی انقلابی تحریروںاو ر تقریروں سے علامہ اقبال کی طرح مسلم ملت کے اندر بیداری اور سرگرمی پیدا کرنی شروع کی۔اُن کا ساتھ دینے کی جگہ ملک ک ے سارے مذہبی فرقے اُن کی شدید مخالفت کرنے لگے اور اُن کو ناکام بنانے کی سازشیں کرنے لگے۔لیکن جس کو اللہ رکھے اُس کو کون چکھے۔مولانا مودودی کے افکار وخیالات ملک سے باہر نکل کر ساری دنیا میں پھیل گئے اوراسلامی نظام ایک جیتا جاگتا پیغام بن کر دنیا کے سامنے آگیا۔مغربی دنیا نے’’ اسلامی سنک‘‘،’’اسلامی تشدد پسندی‘‘،’’اسلامی بنیاد پرستی‘‘ وغیرہ کے نام پر تحریک اسلامی کو عالمی پیمانے پر بدنام کرنا شروع کیا۔لیکن اللہ نے شر میں خیر پیدا کر دیا۔مسلمان موجودہ دنیا تک اسلام کا پیغام نہیں پہنچا سکتے تھے۔یہودی اور عیسائی قوموں کی وجہ سے اسلام کا نام دنیا بھر میں مشہور ہو گیا اور لوگوں تک پہنچ گیا۔دنیا کے سمجھ دار طبقے نے اسلام کے متعلق سچائی جاننا چاہا اور پھر وہ ایمان قبول کرنے لگے۔لیکن وطن عزیز کے اندر چونکہ دنیا پرست مولویوں، خانقاہ کے سجادہ نشینوں،شیخ، پیر اور مولاناؤں کی اجارہ داری تھی اس لئے مسلم عوام ان کے شکنجے سے عام طور پر آزاد نہیں ہو سکی۔
اور پھر یہودیوں نے کارپوریٹ ورلڈ کو پیدا کیا جو بد ترین سرمایہ داری کا اعلان ہے اورآج ساری دنیا اس کارپوریٹ ورلڈ کی غلام بن چکی ہے۔مسلمانوں کے ساتھ پسماندہ طبقات کا بھی شدید استحصال ہو رہا ہے۔تماشے کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کا خوش حال اور سرمایہ دار طبقہ بھی اسی کارپوریٹ ورلڈ کا حصہ بن چکا ہے۔آج کا ہر مسلمان صرف دولت مند بننا چاہتا ہے اوردنیا میں عیش و مستی کی زندگی گزارنے کی تمنا رکھتاہے۔اس کونہ اخلاقی خوبیوں سے کوئی مطلب ہے اورنہ خلاقی خرابیوں کی کوئی پرواہ ہے۔ مسلمان نہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے، نہ قبر اور حشر کے عذاب سے ڈرتا ہے ، نہ محمد ﷺ سے اس کو محبت ہے ، نہ رشتہ داری نبھانے کی فکر ہے، نہ پسماندہ اورمحروم انسانی آبادی سے اسے کوئی ہمدردی ہے۔مسلمان اب جانوروں کی طرح زندگی گزار رہا ہے جس کو صرف اپنی فکرہے کسی دوسرے کی نہیں۔
مسلمانوںکو اُن کے جرم کی اللہ تعالیٰ نے یہ سزا دی کہ یہ پوری دنیا میں غیر مسلم قوموں کے غلام بن کر جی رہے ہیں۔ان کے پاس حکومت بھی ہے دولت بھی ہے پھربھی یہ اپنی شریعت کے مطابق آزادزندگی گزارنے کا حق اور اختیار نہیں رکھتے ہیں۔اللہ اور رسول کی خوشنودی کی جگہ یہ غیروں کی خوشنودی کے لئے اُن کے دربار میں ہاتھ جوڑے، دامن پسارے بھکاری کی طرح سرجھکائے کھڑے ہیں ۔
اس ذلت کی زندگی سے صرف اللہ کے وہ نیک اورصالح بندے محفوظ ہیں جو حق حلال کی معمولی روزی پر قناعت کر کے ایمان اور اخلاق کے تقاضے پورے کررہے ہیں اور سادہ زندگی پر خوش اور مطمئن ہیں۔حرام کی دنیا سے اُن کا واسطہ نہیں ہے۔اللہ کی شان یہ ہے کہ یہ لوگ معمولی ہو کر بھی دنیا والوں میں عزت اوراحترام کے حقدار ہیں۔اللہ کی رحمت اور اُس کے فضل کے سایے میں قناعت پسند بن کر مطمئن اور شاندار زندگی بسر کر رہے ہیں۔
ضضضضض