دنیا کے تمام حصوں میں مسلمان، جب مبارک و مقدس تہوار عید الاضحیٰ مناتے ہیں، تو خدا پر ایمان رکھنے والے اور اس کی حکمت سے مطمئن ہونے والے تين مقدس شخصیتوں کو یاد کرتے ہیں۔ اول ابو الانبياء حضرت ابراہیم عليہ السلام، دوم حضرت اسماعیل عليہ السلام، سوم حضرت (هاجر) ہاجرہ ۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اسلام کے اہم ستون حج کی تقریبات ان تينوں مقدس شخصیتوں سے منسلک ہیں-

ایسو سی ایٹ پروفیسر، اردو شعبہ ۔
عین شمس یونیورسٹی
قاہرہ۔ مصر
حضرت ھاجر ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کى بيوى اور حضرت اسماعیل کی والدہ ہيں- جیسا کہ تاریخی واقعات سے تصدیق ہوتی ہے كہ وه ایک مصری شہزادی تھیں۔ بادشاہ سنوسرٹ اول کی بہن( بارہویں خاندان کا دوسرا بادشاہ) جس نے 1926 سے 1971 قبل مسیح تک اپنے والد شاہ امنمحات اول کے ساتھ مصر پر حکمرانی میں حصہ لیا اور اپنے والد کی وفات کے بعد مصر پر حکومت کی۔ اس کا دور حکومت تقریباً 40 سال یا اس سے زیادہ تک جاری رہا۔ کچھ جنگیں ہوئیں جن میں ايک فرعون نے فتح حاصل کر کے حکومت پر قبضہ کر لیا اور حضرت ہاجرہ کے والد کے حملہ آوروں کے ہاتھوں قتل ہونے کے بعد انھیں اسیر کر لیا گیا تھا۔ فرعون نے ھاجر کے لوگوں کو شکست دینے كے بعد انھیں کنیز بنا لی ۔ اس كے علاوه ابن کثیر نے ذکر کیا ہے کہ حضرت ھاجر کنعانیوں کی ايک شہزادی تھی، جس نے فرعونوں سے پہلے مصر پر حکومت کی تھی، اور وہ ان کے سردار کی بیٹی تھی جسے فرعونوں نے قتل کر دیا تھا، پھر مصر کے فرعون نے انھیں گود لے لیا تھا- ان دو روایات سے مفہوم یہ ہے کہ حضرت ہاجرہ، حضرت ابراہیم عليہ السلام کے ساتھ رشتہ جڑنے اور حضرت سارہ سے ملنے سے پہلے مصر کی شہزادى تھیں –
حضرت ابراہیم عليہ السلام اور ان کی اہلیہ سارہ فرعون بادشاہ سنوسرٹ دوم کے دور حکومت کے چھٹے سال میں، اعرابیوں کے 37 افراد کے ایک وفد کے ساتھ مصر آئے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مصر آمد کی وجہ یہ ہے کہ ان کے لیے سرزمین کنعان میں حالات تنگ ہو چکے تھے،(کنعان میں اس وقت فلسطین، شام، لبنان اور اردن کے کچھ حصے شامل تھے) اس لئے وہ خیر و سلامتی کی سرزمین مصر میں تشریف لائے- عورتیں اور بچے جو اونی اور دیدہ زیب کپڑے پہنے ہوئے تھے، باریش مردوں کے ہمراہ تحائف لے کر بنی حسن کے علاقے کی طرف روانہ ہوئے تھے، جیسا کہ بنی حسن کے مقبرے پر نقشوں سے واضح ہوتا ہے، یہ نقش ابو الانبياء ابراہیم علیہ السلام اور ان کے خاندان کی زیارت کی عکاسی کرتا ہے۔ اس نقش میں چار خواتین نظر آتی ہیں، ان میں سے تین ایک جیسے کپڑوں میں ایشیائی خواتین کی طرح معمول کے مطابق کندھے ڈھانپے ہوئے ہیں اور چوتھی ایسے لباس میں ہے جس سے بایاں کندھا فرعونوں کی عورتوں کے معمول کے مطابق نظر آتا ہے۔ يہ چار عورتيں حضرت ابراہيم عليہ السلام كى بیوی سارہ، ان کے بھتیجے لوط کی بیوی (دمشقی اليعازر) اور حضرت ہاجرہ ہیں-
فرعون عورتوں سے اپنی بے انتہا محبت کے لئے مشہور تھا، جب اس نے حضرت ابراہیم عليہ السلام کى بيوى حضرت سارہ کو ديكھ كے پکڑنے کی کوشش کی، تو اس کا ہاتھ تین بار مفلوج کر دیا گيا تھا۔ یونہی حضرت ساره نے فرعون کو بد دعا دی تھی۔ فرعون نے ان سے کہا، "اپنے رب سے دعا کرو کہ وہ میرے ہاتھ ٹھیک کر دے اور ميں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ پھر کبھی ہاتھ نہیں لگاؤں گا۔” سارہ نے اپنے رب سے دعا کی اور اس کے ہاتھ ٹھیک ہو گئے۔ اس کے بعد فرعون نے انھیں حضرت ہاجرہ تحفے میں دیں۔ ان دو عورتوں کے درمیان اگر کوئی تعلق ہے تو وہ یہ ہے کہ دونوں عفت، ایمان اور عصمت کے راستے پر چلتی تھیں۔ جب فرعون کے دربارميں حضرت ھاجر کو لایا گیا تو وہ بے عیب، باعزت اوراعلیٰ مقام کی حامل تھیں، کیونکہ خدا نے ان کو بچپن سے ہی محفوظ رکھا۔ اسی لئے ان کو معصوم ھاجر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے- فرعون نے حضرت سارہ کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا اور حضرت ھاجر کو ان کے ساتھ بھیجنے کا فیصلہ کیا- ايک اور وجہ يہ ہے كہ اس کے دربار میں حضرت ھاجر کی موجودگی اس کے لئے خطرہ بنتی جارہی تھی کیونکہ وہ لوگوں کو اس کے خلاف بغاوت کرنے کی ترغیب دیتی تھیں، تاکہ وہ اپنی اسیری سے نجات پا سکیں-
اگرچہ حضرت سارہ کو ایک کنیز کے طور پر دیا گیا تھا، لیکن وہ مصر کے ایک صوبے کی شہزادیوں میں سے ایک تھیں۔ اس مومنہ لڑکی کے لیے ابراہیمی پیشین گوئی کے مطابق اللہ نے اپنے گھر میں رہنے کے لیے خدا تعالیٰ نے ان کا انتخاب کیا تھا-حضرت ہاجرہ اور حضرت سارہ نے ایک ساتھ مل کر زندگى گزارى ۔حضرت سارہ نے انھیں مذہب، توحید اور علم الہی کے بارے میں بتایا، (حضرت سارہ نے سارا علم انبیاء کے باپ، ہمارے آقا ابراہیم علیہ السلام سے حاصل کیا تھا) جیسا کہ مشہور ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی سارہ کی کوئی اولاد نہیں تھی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام بوڑھے ہو گئے تھے اور عمر کی وجہ سے ان کے بال سفید ہو گئے تھے، کیونکہ انہوں نے برسہا برس خدا کی عبادت کرتے ہوئے گزارے تھے۔ حضرت سارہ نے سوچا کہ وہ اور ابراہیم تنہا ہیں اور ان کی اولاد نہیں ہے، اس لیے کیوں نہ حضرت ابراہیم کی شادی حضرت ہاجرہ سے کر دی جائے ( یہاں تفسیر کی کتابیں کہتی ہیں كہ) شادی کے بعد جب ھاجر پر حمل کے آثار نمودار ہوئے اور ان كو خوشخبری ملی کہ وہ ایک لڑکے کو جنم دیں گی، جس کا نام وہ اسماعیل رکھیں گی، اور ان کا بیٹا لوگوں کا سردار ہوگا، اس کے ہاتھ میں سب کا ہاتھ ہوگا اور سب کے ہاتھ میں اس کا ہاتھ ہوگا، اور وہ اپنے بھائیوں کے تمام ممالک کا مالک ہوگا۔حضرت ہاجرہ نے اپنے رب کا شکر ادا کیا۔ اس خوشخبری نے ان کی روح کو ایمان، یقین اور سکون سے بھر دیا۔ تو حضرت سارہ کے دل میں حضرت ہاجرہ کے خلاف حسد بڑھنے لگی ۔ حضرت سارہ اپنے شوہر ابراہیم سے شکایت كرنے لگيں کہ ہاجرہ بدل گئی ہیں اور زیادہ مغرور ہو گئی ہیں-
حضرت سارہ کی حضرت ہاجرہ سے حسد اس قدر بڑھ گئی کہ حضرت سارہ نے حضرت ہاجرہ کے ایک عضو کو کاٹنے کی قسم کھائی۔ مگر جب ان کی حسد کم ہوئی اور ان کو کچھ ذہنی سکون ملا تو انہوں نے ہمارے آقا ابراہیم علیہ السلام سے کہا "میں اس قسم کا کیا کروں؟” انھوں نے حضرت سارہ سے کہا، "تم ھاجر کے کان كو چھید دو، تو تُو تمہاری قسم پوری ہو جائے گی، چنانچہ انہوں نے ہاجرہ کے کان چھید کر انھیں ایک بالی پہنادی۔ اس کے بعد حضرت ہاجرہ زیادہ خوبصورت ہو گئیں۔ کہا جاتا ہے کہ حوا کی بیٹیوں میں سے ہاجرہ وہ پہلی خاتون تھی جن کے کان چھیدے گئے تھے۔ دن گزرتے جاتے ہیں اورسارہ کی حسد میں شدت آتی جاتی ہے اور وہ کوئی نہ کوئی الزام لگاتی رہتی ہیں کہ یہ انسانی جبلت ہے-
جب حضرت ہاجرہ نےحضرت ابراہیم کی پہلی اولاد کو جنم دیا تو دونوں بیویوں کے درمیان اختلافات اور جھگڑے اور زياده بڑھ گئے- ہمارے آقا ابراہیم علیہ السلام اسی فکر میں الجھے ہوئے تھے کہ اس بڑھاپے کے دور میں ان کی دونوں بیویوں کے درمیان صلح کیسے ہو سکتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے رب سے مخاطب ہوئے اور اس سے مدد و نصرت کی درخواست کی۔ اور اس حکمت کے لیے جو خدا چاہتا تھا، اور دو بیویوں کے درمیان اختلاف اور جھگڑے سے بچنے کے لیے، خدا تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ اسماعیل اور ان کی والدہ ہاجرہ کو باہر لے جائیں، اور انہیں سارہ سے دور رکھیں-
حضرت ابراہیم نے ہاجرہ كو بتايا کہ ان کو اللہ نےایک دور دراز ملک کا طویل سفر کرنے کا حکم دیا ہے۔ ھاجر نے حکم خدا کی بات سنتے ہی ضروریات کا سامان خوراک اور سفری ضروریات جو جمع کیں اور شیر خوار اسماعیل کو لے کر اپنے شوہر کے ساتھ سفر پر نکل پڑیں۔ حضرت ابراہیم کھیتی والی زمین کو چھوڑ کر ادھر چل پڑےجو پہاڑوں سے گھرا ہوا صحرا تھا، یہاں تک کہ وہ جزیرہ نما عرب میں داخل ہوئے، وہ ایسی بنجر زمین تھی جس میں نہ کوئی پودا، نہ پھل، نہ درخت، خوراک اور پانی۔ وہ زمین زندگی کی نشانیوں سے خالی تھی۔ ابراہیم علیہ السلام نے انہیں وہیں ایک "تھيلے” کے ساتھ چھوڑ دیا، جس میں کچھ کھانا اور تھوڑا سا پانی تھا۔ وہ انہیں رب العالمین کے حوالے کرکے چلے گئے۔ تنہا صحرا پر رات کا غلبہ تھا، اس لیے ھاجر اور ان کا بچہ زمین پر لیٹے تھے، کھانا ختم ہونے کے بعد ان کے پاس صرف پانی کا ایک گھونٹ تھا۔ اس نے اپنے بچے کو اپنے سینے سے مضبوطی سے بھینچ لیا تاکہ خود کواور اس بچے کو خوف سے بچا سکیں اور اسماعيل کے کان میں سرگوشی کی: "تمہارے باپ نے ہمیں یہاں مرنے کے لیے نہیں چھوڑا.. ہم كو اللہ کے لیے چھوڑ گئے ہیں، اور جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ اسے راستہ بنا دیتا ہے۔ باہر نکلتا ہے اور اسے وہاں سے مہیا کرتا ہے جہاں سے اس کی توقع نہیں ہوتی”-
سورج طلوع ہوتا ہے اور صحرا جہاں تک آنکھ دیکھتی ہے اپنا زرد رنگ لوٹا دیتا ہے۔ جیسے ہی سورج آسمان کے بیچوں بیچ پہنچا ہے، وہ پانی کے آخری قطرے سے اپنے بچے کے ہونٹوں کو گیلا کرتی ہیں اور اسے ترس کھا کر دیکھتی ہیں کہ وه پیاس اور بھوک سے تڑپ رہاہے، ان کا شیر بھی خشک ہو چکا ہے وہ رونے لگتی ہیں۔ وہ بچے کو سلانے كى كوشش كرتى ہے- اسے زمین پر لٹاکر وہ پانی کی تلاش میں نکل جاتی ہیں۔ "الصفا” قریب ترین پہاڑ تھا، اس لیے وہ اس پر چڑھ گئیں اور پانی کی تلاش میں اس کے اوپر سے ہر طرف دیکھا۔ جبل المروہ کے پہلو میں انھوں نے ایک سراب دیکھا جسے انھوں نے پانی سمجھا، وہ صفا سے مروہ کی طرف بھاگیں، یہ سوچ کر کہ آخر کار پانی مل جائے گا۔ لیکن کچھ حاصل نہیں ہوا- وہ تھک ہار کر کھڑی نہیں ہوئیں، بلکہ بار بار پانی ڈھونڈتی رہیں ، انھوں نے سات بار ایسا کیا- وہ ساتویں بار پیاسی ہونے کے ساتھ ساتھ چلتے چلتے تھک چکی تھیں ، پانی نہ ملا تو انھوں نے اپنے بچے کی طرف دیکھا تو نظر آیا کہ بچہ ایڑیاں رگڑ رہا ہے اور بچے کے پاؤں کے نیچے سے پانی ابل رہا ہے۔ وہ جلدی سے اس کے پاس آئیں اور اس کے گرد ریت جمع کرنے لگیں اور کہنے لگیں "زم زم”۔ پھر انھوں نے پانی پیا یہاں تک کہ وہ سیراب ہو گئیں اور اپنے بچے کو پانی پلانے کے لیے جھک گئیں، وہ مسلسل خدا کی حمد و ثنا کر رہی تھیں۔ اس كے بعد چند دن ہی ہوئے تھے کہ کچھ قافلے والے مکہ کے قریب پہنچے اوروہ مکہ کی سرحد میں اترے تو انہوں نے ایک پرندے کو دیکھا تو انہوں نے کہا کہ یہ پرندہ پانی کے گرد گھومتا ہے، جبکہ یہ پانی پہلے وہاں نہیں تھا۔ چنانچہ انہوں نے جا کر "ہاجرہ ام اسماعیل” کو پانی کے پاس دیکھا تو انہوں نے کہا کیا آپ ہمیں اجازت دیتی ہیں کہ ہم آپ کے پاس جائیں؟ انھوں نے کہا "ہاں”- وہ اترے اور ان کے گھر والوں كو بلائے تاكہ وه اس جگہ پر آئيں، ان لوگوں کے درمیان ہاجرہ کو بڑا مقام حاصل تھا، اور اس جگہ پر جتنی زیادہ شہرت بڑھتی گئی، ہاجرہ اس کے ساتھ ہی خوش ہوئیں اور اسماعیل نے پرورش پائی ۔ انہوں نے "جرھم” قبائل سے عربی زبان اور علم سیکھا، جو اس جگہ پر رہنے اور آباد ہونے کے لیے آئے تھے۔ دن گزرتے جاتے ہیں، اور ہمارے آقا اسماعیل بڑے ہوتے ہیں، دو بار شادی کی.. اس کے بارہ بیٹے پیدا ہوئے، جو قبیلوں کے سربراہ بنے، اور ان کی اولاد سے عرب آئے جو عربی عرب کہلاتے ہیں۔ اس لیے ہاجرہ کو عربوں کی ماں بھی کہا جاتا ہے ، جنہوں نے "تمام عربوں کے باپ” اسماعیل کو جنم دیا ۔ ہاجرہ اور ان کا بیٹا وہی ہیں جنہوں نے اس مبارک مقام کو بنایا اور اسے قبائل کی ملاقات کا مقام بنایا۔ ہاجرہ کا انتقال نوے سال کی عمر میں ہوا اور انہیں پیغمبر خدا حضرت اسماعیل علیہ السلام نے خدا کے گھر كعبہ کے پاس دفن کیا-
هاجر کے ہیروگلیفک نام کا مطلب ہے مصری کمل کا پھول۔ عربی معنی ہجرت ہے ۔يہ سچ ہے ہاجرہ کی زندگی ایک مسلسل ہجرت ہے۔وہ اپنے وطن مصر سے ہجرت کر کے آئیں، جہاں انہوں نے اپنا بچپن اور جوانی سارہ کے ساتھ گزاری۔پھر وہ فلسطین چلی گئیں، وہاں قیام پذیر ہوئیں۔
حضرت ہاجرہ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے اکلوتے بیٹے میں دو بار آزمایا۔ پہلی بار جب وہ بھوک اور پیاس سے مرنے کے قریب تھا جب ابراہیم عليہ السلام نے انہیں چھوڑ دیا، اور دوسرا جب حضرت ابراہیم اپنے بیٹے اسماعیل کو اللہ کے حکم کی تعمیل میں قربان کرنے کے لیے لے گئے، اور ہر بار ہاجرہ ابراہیم علیہ السلام سے صرف ایک سوال کرتى تھیں : کیا یہ خدا کا حکم ہے؟ ان کا جواب ہاں میں کافی تھا کہ وه رضامندی سے اس بات کو قبول کر لیا جائے، ایمان کی تسکین اس کے دل میں چھلک رہی ہے، اور اس کے اپنے رب پر بھروسہ نے اسے خوف و ہراس سے بچا ليا۔ خُدا پر اُن کا ایمان ایک لمحے کے لیے بھی نہیں ڈگمگایا، اور اُس پر اُس کا بھروسہ بے عیب تھا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہاجرہ کو دو مرتبہ عزت دی، ایک بار ان کے نئے وطن میں جگہ کی مالک بنا کر، اور دوسری مرتبہ صفا اور مروہ کے درمیان اس کی تلاش (سعى)کو حج اور عمرہ کا رکن بنا کر، جس میں سے کوئی بھی اس کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ ان کی تلاش (سعى) اسلام میں حج کے ارکان میں سے ایک بن گئی ہے۔ انہوں نے خدا پر بھروسہ، رکھا، جب ہمارے آقا ابراہیم علیہ السلام نے انہيں اپنے بیٹے کے ساتھ بغیر کھانے اور پانی کے صحرا میں چھوڑ دیا۔ خدا نے ان کے لیے پانی کا ایک چشمہ جاری کیا، جو قیامت تک لازوال ہے- خدا کا معجزہ آج بھی آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے، مسلمان اس چشمہ سے فیض حاصل کرتے ہیں اور بیمار صحت یاب ہوتے ہیں، دور دور سے لوگ اس کے پاس آتے ہیں- "زم زم” جس نے نبیوں اور رسولوں کے دادا "حضرت اسماعیل” کو بچایا، جب وہ پیاس سے مرنے کے قریب تھے۔ اللہ ہم سب کو زم زم سے فیضیاب کرے اور کرۂ ارض کے تمام خطوں کے مسلمان خیر وعافیت میں رہیں-