(1) یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو اے نبیﷺہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل و فکر رکھنے والے اس سے سبق لیں۔(سورہ ٔ ص:۲۹)
جو لوگ خود کو اہل ایمان اور مسلمان کہتے ہیں اُن کا دعویٰ ہے کہ وہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہیں کرتے ہیں۔صرف اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔اللہ نے اپنے بندوں کو سیدھی راہ دکھانے کے لئے قرآن نازل کیا ہے تاکہ اُس کے بندے اس کو سمجھ کر پڑھیں اور اس کے احکام پر عمل کریں۔لیکن جولوگ ایسا نہیں کرتے ہیں وہ اوپر کی آیت کا انکار کرتے ہیں اوروہ اللہ کے نزدیک کافر اور منکر ہیں۔

رابطہ:8298104514
(2) یہ خدائے رحمن و رحیم کی طرف سے نازل کردہ چیز ہے، ایک ایسی کتاب جس کی آیات خوب کھول کھول کر بیان کی گئی ہیں ۔ (حم السجدہ:۳) اے نبیﷺہم نے اس کتاب کو تمہاری زبان میں سہل بنا دیا ہے تا کہ یہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔(الدخان:۵۸)ہم نے اس قرآن کو نصیحت کا آسان ذریعہ بنایا ہے،کیااب ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا ؟ ( القمر: ۳۲)
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ قرآن ہر آدمی نہیں سمجھ سکتا ہے وہ در اصل قرآن کی ان تینوں آیتوں کا انکارکرتے اور اللہ کی بات کو جھٹلاتے ہیں۔جو لوگ اللہ کی بات کو جھٹلائیںکیا وہ اہل ایمان اور اہل اسلام کہے جا سکتے ہیں ؟ ایسے لوگوں کا کیا انجام ہوگا سوچئے ؟
(3) اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔اس دین سے ہٹ کر جو مختلف طریقے ان لوگوں نے اختیار کیے ،جن کو کتاب دی گئی تھی، اُن کے کام کے اس طریقے کی کوئی وجہ اس کے سوا نہ تھی کہ اُنہوں نے علم آجانے کے بعد آپس میںایک دوسرے پرزیادتی کرنے کے لئے ایسا کیا۔ اور جو کوئی اللہ کے احکام و ہدایات کی اطاعت سے انکار کردے اللہ کو اُس سے حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی۔ (آل عمران:۱۹)(اُن سے کہا جائے گا)ایمان کی نعمت پانے کے بعد بھی تم نے کافروں جیسا طور طریقہ اختیار کیا ؟ اچھا تو اب اس نعمت کی ناشکری کرنے کے بدلے میں عذاب کا مزہ چکھو۔ (آل عمران: ۱۰۶) جن لوگوں نے ہماری آیات کو ماننے سے انکار کر دیا ہے اُنہیں یقینا ہم آگ میں جھونکیں گے اور جب اُن کے بدن کی کھال گل جائے گی تو اُس کی جگہ دوسری کھال پیدا کر دیں گے تا کہ وہ عذاب کاخوب مزہ چکھیں۔اللہ بڑی قدرت رکھتا ہے اور اپنے فیصلوں کو عمل میں لانے کی حکمت خوب جانتا ہے۔( النسائ:۵۶)اب اُس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ کی آیات کو جھٹلائے اور اُن سے منہ موڑے،جو لوگ ہماری آیات سے منہ موڑتے ہیں اُنہیں اُن کی اس منہ موڑنے کے بدلے میں ہم بد ترین سزا دے کر رہیں گے۔(انعام:۱۵۷)یقین جانو جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا ہے اور اُن کے مقابلے میں بغاوت کی ہے اُن کے لئے آسمان کے دروازے ہرگز نہ کھولے جائیں گے،اُن کا جنت میں جانا اتنا ہی ناممکن ہے جتنا سوئی کے ناکے سے اونٹ کا گزرنا، مجرموں کو ہمارے یہاں ایسا ہی بدلہ ملا کرتا ہے۔(اعراف: ۴۰)
ان آیتوں میں پہلی بات یہ بتائی جا رہی ہے کہ قرآن کی ہدایتوںکو چھوڑ کر امت کو دوسری باتوں میں الجھائے رکھنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ امت کو اللہ کافرماں بردار نہیں بنایا جائے بلکہ اپنی باتوں کا غلام بنا کر اُن سے فائدہ اٹھایا جائے۔آج مسلمانوں کے جتنے فرقے ہیں وہ سب کے سب یہی کام کر رہے ہیں۔اللہ کو ایسے لوگوں کو سزاد ینے میں کچھ دیر نہیں لگے گی اور وہ ان کو سزا دے کر رہے گا۔دوسری بات یہ کہی جارہی ہے کہ مسلم گھرانے میں پیدا ہونے کے بعد بھی تم نے کافروں کی طرح زندگی گزاری تو اب اس نافرمانی کا مزا چکھو۔تیسری بات یہ کہ دوزخ میں کھال جل جائے گی اور پھر پیدا کر دی جائے گی تاکہ جلنے کی سزا لگاتار ملتی رہے۔اللہ کی قدرت کے لئے یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ چوتھی بات یہ کہ قرآن کی باتوں کو نہیں ماننے اور ان پر عمل نہیں کرنے کی سزایہ ہے کہ موت سے پہلے دنیا کی زندگی میں ہی اللہ ایسے لوگوں کو عذاب میں مبتلا کر دے گا اور مرنے کے بعد اُن پر آسمان کا وہ دروازہ نہیں کھولا جائے گا جو جنت میں لے جاتا ہے۔جس طرح سوئی کے سوراخ سے اونٹ نہیں گزر سکتا ہے ویسے ہی ایسے لوگوں کا جنت میں جانا بالکل ناممکن بات ہے۔نادان مسلمان قرآن پڑھتے تو ہیں لیکن سمجھتے اور عمل نہیں کرتے ہیں۔
(4) اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! ایمان لاؤ اللہ پر اُس کے رسول پر اور اُس کتاب پر جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کی ہے اور ہر اُس کتاب پر جو وہ اس سے پہلے نازل کر چکا ہے، جس نے اللہ اوراُس کے فرشتوں اور اُس کی کتابوں اور اُس کے رسولوں اور آخرت کے دن کا انکار کیا وہ گمراہی میں بھٹک کر بہت دور نکل گیا۔ ( النسائ: ۱۳۶)
جو لوگ ایمان کاجھوٹا دعویٰ کرتے ہیں اُن کا جھوٹ ثابت کیا جارہا ہے کہ ایمان کا دعویٰ کرنے کے بعد بھی ایسے لوگ اللہ کی کتاب کے احکام کو نہ جاننا چاہتے ہیں اور نہ اُن پر عمل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ در اصل کافر ہیں اور وہ گمراہی میں اتنے دور چلے گئے ہیںجہاں سے اُن کی واپسی ممکن نہیں ہے۔
(5) جو لوگ اللہ کے نازل کئے ہوئے قانون کے مطابق فیصلے نہ کریں وہی کافر ہیں۔ () جو لوگ اللہ کے نازل کئے ہوئے قانون کے مطابق فیصلے نہ کریں وہی ظالم ہیں۔( )جو لوگ اللہ کے نازل کئے ہوئے قانون کے مطابق فیصلے نہ کریں وہی فاسق ہیں۔ (المائدہ: ۴۴، ۴۵ اور۴۷)
ان تینوں آیتوں میں کہا جارہا ہے کہ جو لوگ زندگی کے تمام فیصلے اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب یعنی قرآن کے حکم کے مطابق نہیں کرتے،بلکہ دنیا والوں کے بنائے ہوئے قانون اور باپ دادا کے رسم و رواج کے مطابق کرتے ہیں وہ کافرہیں، ظالم ہیںاور فاسق ہیں۔اہل ایمان اور مسلم نہیں ہیں۔
(6) چھوڑو اُن لوگوں کو جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تماشا بنا رکھا ہے اور جنہیں دنیا کی زندگی فریب میں مبتلا کئے ہوئے ہے۔ہاں مگر یہ قرآن سنا کر نصیحت اور تنبیہ کرتے رہو ………(انعام:۷۰)
پیارے نبیﷺ لوگوں کو قرآن کی دعوت دے رہے تھے۔اُن کو اس بات کی بہت فکر تھی کہ ہماری قوم کے لوگ قرآن کا انکارکرنے کی سزا میں جہنم کی آگ میں جلائے جائیں گے۔وہ اُن کو اُس عذاب سے بچانا چاہتے تھے۔اللہ تعالیٰ اپنے نبیﷺ کی پریشانی دور کرنے کے لئے حکم دے رہا ہے کہ جن لوگوں نے اصلی اسلام کو کھیل تماشہ بنا لیا ہے اُن کو اُن کے حال پر چھوڑ دیجئے۔ آپ کو اُن کے لئے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں اُن کو قرآن کا پیغام سنا کر نصیحت کرتے رہئے کہ آپ کی ذمہ داری بس اتنی ہی ہے۔محرم کے اکھاڑے، مزار کی چادر کا جلوس، جلوس محمدی تماشہ نہیں تو اور کیا ہے ؟
(6) اوراے نبیﷺ ! ان کے سامنے اُس شخص کا حال بیان کرو جس کو ہم نے اپنی آیات کا علم عطا کیا تھا مگر وہ اُن کی پابندی سے نکل بھاگا۔آخر کار شیطان اُس کے پیچھے پڑ گیا یہاں تک کہ وہ بھٹکنے والوں میں شامل ہو کر رہا۔ اگر ہم چاہتے تواُسے ان آیتوں کے ذریعہ سے بلندی عطا کرتے، مگر وہ تو زمین ہی کی طرف جھک کر رہ گیا اور اپنی خواہش نفس ہی کے پیچھے پڑا رہا،لہذا اُس کی حالت کتے کی سی ہو گئی کہ تم اُس پر حملہ کرو تب بھی زبان لٹکائے رہے اور اُسے چھوڑ دو تب بھی زبان لٹکائے رہے۔ یہی مثال ہے اُن لوگوں کی جوہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں۔تم یہ حکایات اُن کو سناتے رہو شاید کہ یہ کچھ غو روفکر کریں۔ (اعراف:۱۷۵/۱۷۶)
اس آیت میں عالم، فاضل، حافظ اور قاری کے بارے میں بتایا جارہا ہے کہ ان لوگوںنے مدرسے میں دین کی تعلیم پائی اور پھر بھی مسلم عوام کو دین کی تعلیم دینے اور اُن کو سیدھا راستہ بتانے کی جگہ دنیا کمانے میں لگ گئے اور دنیا داروں جیسے بن گئے تواللہ تعالیٰ نے اُن کوکتا بن جانے کی سزا دی۔غور کیجئے اس وقت جتنے عالم ، فاضل، مولوی، مولانا،مسجد کے امام اور جماعتوں کے امیرہیں وہ سب کے سب ملت کو دین سکھانے کی جگہ دولت کمانے میں دیوانے بنے ہوئے ہیں یا نہیں ؟ اللہ تعالیٰ اُن کے متعلق کتنی گندی مثال دے رہا ہے کہ یہ اچھے آدمی تو کیا ہوں گے آدمی بھی نہیں کتے بن گئے ہیں۔اب حال یہ ہے کہ وہ تمام لوگ جو اس مذہبی گروہ کی حرکتوں سے واقف ہو چکا ہے اُس کے نزدیک نہ صرف یہ کہ ان کی کوئی عزت نہیں ہے بلکہ وہ ان کو نفرت اور حقارت کی نگاہوں سے دیکھتا ہے۔
(7) مجرموںکے دلوں میں تو ہم اس ذکر(قرآن) کو اسی طرح (سلاخ کی مانند) گزارتے ہیں۔ وہ اس پر ایمان نہیں لایا کرتے۔ پرانے زمانے سے اس طرح کے لوگوں کا یہی طریقہ چلا آ رہا ہے۔(الحجر: ۱۲/۱۳)
مطلب یہ ہے کہ جو لوگ قرآن کا انکار کرنے کے مجرم ہیں، اللہ نے یہ طے کر دیا ہے کہ ایسے لوگوں کے نزدیک جب بھی قرآن کی باتیں کی جائیں گی تو اُن کو شدید وحشت اور بے چینی ہوگی اور اُن پر جبر گزرے گا کہ قرآن کی باتیں کیوں کی جارہی ہیں۔ہمیشہ سے قرآن کا انکارکرنے والوں کا یہی رویہ رہا ہے۔اور آج بھی یہی حال ہے۔دنیااور دولت کے لالچی صرف دنیا کی ترقی کی باتیں کرتے ہیں ، دین یعنی قرآن وسنت کی باتیں سنناگوارا نہیں کرتے۔
(8) کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو اور پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں اُن کی سزا اس کے سوااور کیا ہے کہ وہ دنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار ہو کر رہیں اور آخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دیے جائیں۔ اللہ اُن کی حرکات سے بے خبر نہیں ہے۔ (البقرہ: ۵ ۸)
اس آیت میں کہا جارہا ہے کہ قرآن کی کچھ باتوں کو ماننا اور کچھ باتوں کو نہیں ماننا ایساگناہ ہے جس کے نتیجے میں ایسے لوگ دنیا میںبھی ذلیل و خواربنا دئے جائیں گے ، بے عزتی ،رسوائی اُن کا مقدر بن جائے گی اور غیروں کی غلامی کرنے کے سوا اُن کے پاس کوئی چارا نہیں ہوگا۔اور مرنے کے بعد آخرت میں اُن کو دوزخ کی آگ کا سخت عذاب دیا جائے گا۔اس آیت کا تعلق بھی اُن لوگوں سے ہے جو خود کو قرآن و سنت اور شریعت کا جانکار کہتے ہیںمگر امت کو آدھی ادھوری باتیں بتاتے ہیں اور خود بھی شریعت کی مکمل پیروی نہیں کرتے ہیں۔نماز پڑھنا اور قرآن کے دوسرے احکام کو نہ ماننا سنگین جرم ہے۔اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی پوری طرح نگرانی کر رہا ہے اور اُن کے گناہوں کا پکا ریکارڈ تیار کیاجارہا ہے۔
(9) اورجو میرے ذکر(قرآن)سے منہ موڑے گا اُس کے لئے دنیا میں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز ہم اُسے اندھا اٹھائیں گے۔ (طٰہٰ : ۱۲۴)
اس آیت میں قرآن کا انکار کرنے والے دنیا داروں کے بارے میں بتایا جارہا ہے کہ وہ دولت کمانے کی دھن میں قرآن سے غافل رہنے کا جو جرم کر رہے ہیں اُس کی سزا اُن کو یہ ملے گی کہ جو دولت اور دنیا اُنہوں نے کمائی ہے وہ اُن کی جان کا جنجال بن جائے گی۔اُس کی وجہ سے وہ ہمیشہ الجھن ، فکر ، پریشانی ،شن میں اور بے اطمینانی کی حالت میں رہیں گے اور مرنے کے بعد قیامت کے دن وہ آنکھوں سے محروم کر دیے جائیں گے۔سوچئے کتنی خطرناک سزا ہے یہ ؟ آج کا ہر دولت مند آدمی بے چینی، الجھن اورپریشانی کا شکار ہے۔سچی خوشی،دل کے اطمینان اور دماغی سکون سے محروم زندگی گزار رہا ہے۔
10) اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب! میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کومذاق کا نشانہ بنا لیا تھا۔(فرقان:۳۰)
وہ سارے لوگ جو اپنے پیچھے چلنے والوں کو قرآن سمجھ کر پڑھنے کی تلقین اور تاکید نہیں کرتے ہیں اور نبی ﷺ کی شفاعت کا یقین دلا کر گناہ کرنے پر ڈھیٹ بنانے میں لگے ہوئے ہیں، یہ آیت ایسے لوگوں کے جھوٹ کا پول کھول رہی ہے کہ خود نبیﷺ ایسے لوگوں کے خلاف اللہ تعالیٰ کی عدالت میں مقدمہ دائر کریں گے کہ میری امت نے میرے دنیا سے چلے آنے کے بعد قرآن سے اپنا رشتہ توڑ لیا تھا، اس لئے امت کے اس گناہ کی اُن کو سنگین سزا دی جائے۔غور کیجئے کہ قرآن کو سمجھ کر پڑھنے اور عمل کرنے کی تبلیغ ، تاکید اور تلقین کرنے کی جگہ مسلمانوں کا ہرفرقہ اپنے طور طریقے کی پیروی کرانے میں لگا ہو اہے اور اس بات کا یقین دلا رہا ہے تم ہی اصلی جنتی ہو۔جو لوگ آج ایسا کرنے میں لگے ہوئے ہیںنبیﷺ اُن سبھوںکے خلاف دعویٰ کریں گے کہ ان لوگوں نے قرآن کی باتوں کو مذاق بنا لیا تھا۔سوچئے کیا ایسا کرنے اور کرانے والے نبیﷺکی شفاعت کے حقدار بن سکیں گے اورکیا اللہ تعالیٰ اُن کو نجات دے گا ؟ کیا ایسے لوگ جہنم کے عذاب سے خود کو کسی بھی ذریعہ سے بچا سکیں گے ؟
قابل ذکر بات : اس وقت جب کہ مسلم سماج میں بے علمی،بے حسی اور اسلام سے شدید غفلت کا ما حول ہے ،میںاپنے ان مضامین کے ذریعہ قارئین کو براہ راست قرآن و سنت کی تعلیمات سے رو برو کرا رہا ہوںتا کہ اُن کی عقل اور نظر پر جو پردہ پڑا ہوا ہے وہ ہٹ جائے۔میرے یہ مضامین جہاں جہاں جن جن اخباروں میں شائع ہو رہے ہیں اُن سب اخباروں کے مالکان اور مدیران کا میں انتہائی شکر گزار ہوں کہ میرے اس جہاد میں وہ برابر کے شریک ہیں۔میں اُن سبھوں کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ اُن کے تمام گناہوں کو معاف فرمائے اور اُن کی نیکیوں کا بھر پور اجر عطا کرے جو اُن کی بخشش کا سامان بن جائے۔آمین ثم آمین !!
انساں جس کو بھول گیا ہے ، میں ہوں وہ قرآن
سیدھی راہ دکھاؤں سب کو ، یہ ہے میری شان
ناسمجھیں یہ دنیا والے ، کیسے ہیں نادان
دنیا والوں کی خاطر ہوں ، میں رب کا فرمان
مجھ سے غافل رہنے والا ، یہ ظالم انسان
اپنی بربادی کا صارمؔ کرتا ہے سامان