میرے گزشتہ مضمون سے یہ بات تو ظاہر اور ثابت ہو گئی کہ نیکی کا کوئی عمل اُس وقت تک قابل قبول اور معیار کے مطابق نہیں ہوگا جب تک کہ انسان دل کی تنگی سے آزاد نہ ہو جائے او ر اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے میں بخیلی سے خود کو نہ بچا لے۔اب اس کے بعد یہ سوال سامنے آتا ہے کہ اللہ کی راہ میں کیا اور کتنا خرچ کیا جائے ؟ تو اس کا جواب قرآن کی اس آیت میں موجود ہے۔

’’اے نبی لوگ پوچھتے ہیں کیا خرچ کریں ؟ کہـہ دیجئے جو تمہاری ضرورت سے زیادہ ہے خرچ کرو۔ اس طرح اللہ تعالیٰ اپنی نشانیاں واضح کرتا ہے شاید کہ تم لوگ غور و فکر کرو۔ (البقرہ:۲۱۹)خرچ کرنے کا معیار یہ بتایا گیا کہ تمہاری جوبنیادی ضرورتیں ہیں اُن کی خاطر مال رکھ لو اور اُس کے بعد جو کچھ بھی بچ رہا ہے اُسے اللہ کی راہ میں اللہ کے محتاج اور مجبور بندوں پر خرچ کر دو۔
یہاں پر ایک سوال یہ بھی سامنے آتا ہے کہ کسی آدمی کی کتنی آمدنی ہونی چاہئے جس پر اُسے اپنا مال خرچ کرنا لازم ہو جاتا ہے۔تو اس سوال کا جواب قرآن کے شروع میں ہی دے دیا گیا ہے۔ال م کے بعد ہدایت پانے کے لئے تقویٰ کی پانچ صفات کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’ہم نے تمہیں جو روزی بھی دی ہے اُس میں سے خرچ کرو۔‘‘ مطلب یہ ہوا کہ روزی ضرورت سے کم ہو یا زیادہ ، خرچ کرنے کا تعلق زیادہ اور کم سے نہیں ہے۔یہ ایک نیک عمل اور عبادت ہے اس لئے اس کو کرنا لازم ہے۔کم آمدنی ہے تو خرچ بھی کم ہوگا،لیکن ہو گا ضرور۔مثلاً ایک آدمی دن بھر کی محنت کے بعد پانچ سو روپے کماتا ہے اوراُسے ہر روز کام بھی نہیں ملتا ہے۔یعنی ایک دن کی کمائی پر کئی دن گزارا کرنا ہوتا ہے۔ایسا آدمی تو اپنی ایک دن کی آمدنی کو اُس وقت تک بچا کر رکھے گاجب تک کہ اُسے پھر دوبارہ کام نہ مل جائے ؟ نہیں یہاں کہاجارہا ہے کہ کل کی روزی کے لئے اللہ کے رازق ہونے پر ایمان رکھتے ہوئے آج کی آمدنی میں سے کچھ نہ کچھ ضرور خرچ کر دو۔خرچ کرنے میں دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کہاں خرچ کریں ؟ اس کا جواب قرآن کی اس آیت میں پہلے ہی دے دیا گیا ہے۔
اے نبیﷺ ! یہ آپ سے پوچھتے ہیں کیا خرچ کریں ؟ کہـہ دیجئے کہ تم بھلائی کے ارادے سے جو کچھ بھی خرچ کرو اپنے والدین پر ،قرابت مندوں پر ، یتیموں مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو۔اور تم جو بھلائی بھی کرو گے اللہ تعالیٰ کو اس کا علم ہے۔ (البقرہ:۲۱۵)
یعنی خرچ کے حقدار کی ترتیب یہ بتائی گئی کہ سب سے پہلے حقدار ماں باپ ہیں۔ماں باپ نے اپنی پوری زندگی اور زندگی بھر کی ساری کمائی بال بچوں کی پرورش، تعلیم تربیت اور اُن کا نکاح کر کے گھر بسانے میں خرچ کر دی اور اب باپ چونکہ روزی کمانے کی طاقت نہیں رکھتا ہے اس لئے محتاج اور مجبور ہو چکا ہے۔بیٹیاں تو سسرال میں ہیں اُن کی تو کوئی آمدنی ہے نہیں۔اس لئے ماں باپ پر خرچ کرنا اُن کی ذمہ داری نہیں ہے۔ہاں اگر وہ خوش حال ہیں اور مال خرچ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیںاور شوہر اجازت دیتا ہے کہ اپنے ماں باپ کا خیال رکھو تو وہ اپنے مال سے ماں باپ کی مدد کرنے کی مجاز بن جاتی ہیں۔لیکن بیٹوں کا یہ فرض ہے کہ ماں باپ کے سارے اخراجات وہ پورے کرے۔
اس کے بعد دوسرا نمبر قرابت مندوں یعنی رشتہ داروں کا آتا ہے۔خاندان میں نزدیک اور دور کے جتنے رشتہ دار محتاج اور مجبور ہیں ،ہر صاحب مال کے خرچ کے پہلے حقدارماں باپ کے بعد وہ بن جاتے ہیں۔یعنی ماں باپ پر مال خرچ کرنے کے بعد بھی مال بچ گیاتو وہ ضرورت مند رشتہ داروں پر خرچ کیا جائے گا۔ان پر خرچ کرنے کے بعد بھی مال بچ گیا تو پھر یتیم، مسکین اورمسافر اس مال کے حقدار ہو جاتے ہیں کہ اُن کی مدد کی جائے۔
اصل میں مدد کے مستحق وہ تنگ دست لوگ ہیں جو اللہ کے کام میں ایسے گھر گئے ہیںکہ اپنے ذاتی کسب معاش کے لئے زمین میں کوئی دوڑ دھوپ نہیں کر سکتے ہیں۔ان کی خود داری دیکھ کر ناواقف آدمی سمجھتا ہے کہ یہ خوش حال ہیں۔تم ان کے چہرے سے ان کا اندرونی حال پہچان سکتے ہو۔ لیکن وہ ایسے لوگ نہیں ہیں جو لوگوںکے پیچھے پڑ کرکچھ مانگیں۔ ان کی اعانت میں جو کچھ مال تم خرچ کرو گے وہ اللہ سے پوشیدہ نہ رہے گا۔ (البقرہ:۲۷۳)
اس آیت میں خرچ کے حقدار وہ لوگ بھی بتائے جارہے ہیںجو لوگوں کو دین کی تعلیم دینے اور دعوت کا کام کرنے کی وجہ سے اسی کام میں اپنا سارا وقت خرچ کر دیتے ہیں۔اپنے لئے حلال روزی کمانے کا اُن کے پاس موقع ہوتا ہی نہیں۔کہا جارہا ہے کہ ایسے اللہ والوں کی کفالت صاحب حیثیت مسلمانوں کا فرض ہے۔اُن کی ذمہ داری ہے کہ مکمل احتیاط کے ساتھ یعنی ایسے محتاج لوگوں کی عزت نفس اور اُن کی خود داری کو ذرا بھی ٹھیس نہ پہنچے، اُن کی تمام جائز ضروریات کے لئے اُن کو اتنی رقم مہیا کریں کہ وہ اپنی ضرورتوں سے بے نیاز ہو جائیں۔
اے ایمان لانے والو اپنے صدقات کو احسان جتا کر اور دکھ دے کر اُس شخص کی طرح خاک میں نہ ملا دو جو اپنا مال صرف لوگوں کو دکھانے کے لئے خرچ کرتا ہے اور نہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے نہ آخرت پر۔اُس کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک چٹان تھی، جس پر مٹی کی تہہ جمی ہوئی تھی۔اُس پر جب زور کی برسا ت ہوئی تو ساری مٹی بہہ گئی اورصاف چٹان کی چٹان رہ گئی۔ایسے لوگ اپنے نزدیک خیرات کر کے جو نیکی کماتے ہیں، اُس سے کچھ بھی اُن کے ہاتھ نہیں آتا، اور کافروں کو سیدھی راہ دکھانا اللہ کا دستور نہیں ہے۔()اس کے خلاف جو لوگ اپنے مال اللہ کی رضا کے لئے دل کی پوری طاقت کے ساتھ خرچ کرتے ہیں، اُ ن کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے کسی برابر زمین پر ایک باغ ہو۔اگر زور کی بارش ہو جائے تو دوگنا پھل لائے۔ اوراگر زور کی بارش نہ بھی ہو تو ایک ہلکی پھوار ہی اُس کے لئے کافی ہو جائے۔تم جو کچھ کرتے ہو سب اللہ کی نظر میں ہے۔(البقرہ:۲۶۴/ ۲۶۵)
ان آیات میں خرچ کرنے کے آداب بتائے جا رہے ہیں کہ جن کی مدد کی جا رہی ہے اُن پر کبھی احسان نہ جتایا جائے اور اُن کے ساتھ کبھی کوئی ایسا سلوک نہ کیا جائے جس سے اُن کی غیرت کو ٹھیس پہنچے اور اُن کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے ۔اگر ایسا ہوا تو مال خرچ کرنے کی ساری نیکی برباد ہو جائے گی۔عمل برباد ہونے کی کیفیت نیچے کی آیت میں بتائی جارہی ہے۔
کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اُس کے پاس ہرا بھرا باغ ہو،نہروں سے سیراب، کھجور وں اور انگوروںاورہر طرح کے پھلوں سے لدا ہوا،وہ عین اُس وقت ایک بگولے کی زدمیں آ کر جھلس جائے جب کہ وہ خود بوڑھا ہو اور اُس کے بچے کم سن،ابھی کسی لائق نہ ہوں۔اس طرح اللہ اپنی باتیں تمہارے سامنے بیان کرتا ہے، شاید کہ تم غور و فکر کرو۔(البقرہ:۲۶۶)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو،جو مال تم نے کمائے ہیں اورجو کچھ ہم نے تمہارے لئے زمین سے نکالا ہے اُس میں سے بہتر حصہ خدا کی راہ میں خرچ کرو۔ ایسا نہ ہو کہ اُس کی راہ میںدینے کے لئے بری سے بری چیز چھانٹنے لگو،حالانکہ وہی چیز اگر کوئی تمہیں دے توتم ہرگز اُسے لینا گوارا نہیں کرو گے، مگر یہ کہ اس کو قبول کرنے میںتم دھیان نہ دو۔تمہیں جان لینا چاہئے کہ اللہ بے نیاز ہے اور بہترین صفات سے متصف ہے۔ (البقرہ:۲۶۷)
خرچ کرنے کی ایک اور شرط یہاں یہ بتائی جا رہی ہے کہ صدقہ اگر نقد رقم کی جگہ سامان کا کیاجائے تو ایسا نہ ہو کہ چھانٹ چھانٹ کر خراب چیزیں صدقہ میں دی جائیں۔حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:خدا کی قسم کوئی بندہ اُس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اپنے بھائی کے لئے وہی پسند نہ کرے جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے۔ (بخاری/مسلم)
اگر اپنے صدقات دکھا کر دو تو یہ بھی اچھا ہے، لیکن اگر چھپا کر حاجت مندوں کو دو تو یہ تمہار حق میں زیادہ بہتر ہے۔تمہاری بہت سی برائیاں اس طریقے سے مٹ جاتی ہیں۔اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ کو بہر حال اُس کی خبرہے۔(البقرہ:۲۷۱)
اس آیت میں صدقہ کرنے کے سلسلہ میں ایک اور ہدایت دی جارہی ہے کہ صدقہ دکھا کر بھی دیا جاسکتا ہے اور چھپا کر بھی۔سمجھنا چاہئے کہ جب صدقہ کسی فرد یا خاندان کو دیا جارہا ہے تو اُس کو چھپانا اور پوشیدہ رکھنا لازمی شرط ہے۔لیکن جب یہ صدقہ کسی بیت المال میں جمع کیا جارہا ہے تو وہاں یہ بتانا ہوگا کہ رقم زکوٰۃ کے مد کی ہے یا عام صدقہ کے مد کی۔نیچے کی آیت میں انفرادی طور پر خرچ کرنے کا طریقہ یہ بتایا جارہا ہے کہ محتاج کی مدد کرتے ہوئے بات کرنے کا لہجہ نہات ہمدردی بھرا اور خوش گوار ہونا چاہئے۔اور ضرورت مندکے متعلق کوئی ایسی بات نہ کہی جائے جس سے اُس کے دل کو دکھ اور تکلیف پہنچے۔اللہ کی صفت یہ ہے کہ وہ ہر طرح کی ضرورت سے آزاد ہے اور حد سے زیادہ برداشت کرنا اُس کی خاص صفت ہے۔اللہ کی خوشنودی کے لئے بندے کو بھی اپنے اندر ایسی ہی صفت پیدا کرنی چاہئے۔
ایک میٹھا بول اور ذرا سی بات پر نظر بچانا اُس خیرات سے بہتر ہے، جس کے پیچھے دکھ ہو۔ اللہ بے نیاز ہے اور برداشت کرنا اُس کی صفت ہے۔(البقرہ:۲۶۳)اس آیت کا ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی نے مدد کا سوال کیا ہو اور سوال سننے والا ابھی اس حالت میں نہیں ہے کہ مدد کر سکے تواس پر اُسے غصہ ہونا اور جھنجھلانا نہیں چاہئے، بلکہ انتہائی نرمی اور عاجزی کے ساتھ معذرت کرنی چاہئے۔
شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور شرمناک طریقہ اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے،مگر اللہ تمہیں اپنے بخشش اور فضل کی امید دلاتا ہے۔ اللہ بڑا فراخ دست اوردانا ہے۔(البقرہ:۲۶۸)
شیطان کبھی یہ نہیں چاہتا ہے کہ انسان نیکی کرے اورخدا کا فرماں بردار بنے،اس لئے خرچ کرنے والے کے دل میں یہ وسوسہ پیدا کرتا ہے،یا نادان رشتہ داروں اور ہمدردوں کے ذریعہ یہ مشورہ دلواتا ہے کہ نادان سب دے دو گے تو خود کیا کھاؤ گے ؟ یاد رکھنا چاہئے کہ خرچ کا بدلہ دینے کا وعدہ اللہ کا ہے ۔اللہ پر یقین اور اعتماد نہیں کرنا اور شیطان کے بہکاوے میں آنا جہالت اور گمراہی ہے۔نیچے کی آیتوں میں بہت ہی اعلیٰ درجہ کی نصیحتیں کی جارہی ہیں۔
(اللہ)جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے،اور جسے حکمت ملی اُسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی،ان باتوں سے صرف وہی لوگ سبق لیتے ہیں جو عقل والے ہیں۔ (البقرہ:۲۶۹)
اے نبی ! لوگوں کو ہدایت بخش دینے کی ذمہ داری تم پر نہیں ہے۔ہدایت تو اللہ ہی جسے چاہتا ہے بخشتا ہے۔اور خیرات میںجو مال تم خرچ کرتے ہو وہ تمہارے اپنے لئے بھلا ہے۔آخر تم اسی لئے تو خرچ کرتے ہو کہ اللہ کی رضا حاصل ہو۔تو جو کچھ مال تم خیرات میں خرچ کرو گے، اُس کا پوراپورا اجر تمہیں دیا جائے گا۔اور تمہاری حق تلفی ہرگز نہ ہوگی۔ (البقرہ:۲۷۲)
نیچے کی ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ خرچ کرنے والے بندوں کو ایسی عظیم الشان خوش خبری دے رہا ہے کہ اس کے پڑھنے اور سمجھنے کے بعد اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا شوق ہر ایمان والے کے دل میں طوفان کی طرح موج مارنے لگے گا۔
جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں،اُن کے خرچ کی مثال ایسی ہے ،جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اُس سے سات بالیں نکلیں اور ہر بال میں سو دانے ہوں۔اسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے بڑھاتا ہے۔وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی۔ (البقرہ:۲۶۱)جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیںاور پھر خرچ کرکے احسان نہیں جتاتے ، نہ دکھ دیتے، اُن کا اجر اُن کے رب کے پاس ہے اور اُن کے لئے کسی رنج اور خوف کا موقع نہیں۔ (البقرہ:۲۶۲)جو لوگ اپنے مال شب و روز کھلے اورچھپے خر چ کرتے ہیں اُن کا اجراُن کے رب کے پاس ہے اور اُن کے لئے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں۔ (البقرہ:۲۷۴)
لیکن ان آیتوں کے پڑھنے اور سمجھنے کے بعد بھی کوئی مسلمان بخیل اور کنجوس بنا رہتا ہے اور اللہ کی راہ میں اپنا مال دل کھول کر خرچ نہیں کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ صرف نام کا نقلی مسلمان ہے۔وہ بد نصیب ایمان اور ہدایت دونوں نعمتوں سے محروم ہے۔
ایک اورضروری بات سمجھئے کہ ان تمام آیتوں میں ضرورت مندوالدین، رشتہ دار،یتیم ، مسکین اور مسافر پر خرچ کرنے کا حکم دیا جارہا ہے۔کسی جماعت، امارت، ادارے ، مکتب، مدرسے ، جامعہ یا کسی ڈاکٹر انجینیر بنانے کے پروگرام میں مدد کرنے کی تاکید اور تلقین نہیں کی جارہی ہے۔ زکوٰۃ اور عام صدقہ کی رقم جو لوگ بیت المال کے نام پر لے رہے ہیں، اُن کا بیت المال اسلامی اور شرعی بیت المال نہیں ہے،بلکہ ایک فریب ہے۔محتاج اور مجبور کو محروم کرکے ڈاکٹر اور انجینیر بنانا شریعت کی خلاف ورزی کرنا ہے۔ایسے سارے پروگرام شریعت کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہیں اور زکوٰۃ و صدقات کی رقم محتاج و مجبور پر خرچ کرنے کی جگہ غلط کاموں میں برباد کی جارہی ہے۔شریعت کے مطابق پورے ملک میں ایک جماعت ہوگی ، ایک امیر ہوگا اور ایک بیت المال ہوگا۔ہر مسلمان جماعت کا ممبر ہو گا، سب پر امیر کا حکم ماننا فرض ہوگا۔ بیت المال سے پورے ملک کے محتاج مجبور مسلمانوں کی کفالت کی جائے گی۔ابھی ہر جماعت اور اُس کے بیت المال کی حیثیت زمیندار اور جاگیر دار کے جیسی ہے۔ان سے بچنے کے لئے قرآن کی اس ہدایت کو یاد رکھئے:’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو… جو کام نیکی اور خدا سے ڈرنے کے ہیں اُن میں سب سے تعاون کرو اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیںاُن میں کسی سے تعاون نہ کرو،اللہ سے ڈرو اُس کی سزا بہت سخت ہے۔‘‘( المائدہ:۲)زمین داروں کے خزانے میں صدقہ زکوٰۃ دینا نیکی نہیں گناہ ہے۔