دنیا میں جتنے بھی مذہب اور نظریات کے ماننے والے پائے جاتے ہیں اُن کے بارے میں کبھی اصلی اور نقلی ہونے کی کوئی بات نہیں ہوتی ہے۔لیکن مسلمان ایسے لوگ ہیں جن کے درمیان اصلی اور نقلی ہونے کی بحث ایک زمانے سے چلی آرہی ہے اور چلتی چلی جارہی ہے۔ایسا کیوں ہے مسلمانوں نے کبھی اس پر سوچنے اورغور کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔آئیے اس معاملے کو ایک مثال سے سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی جائے۔

رابطہ:8298104514
جو چیز نقلی ہے اوردنیا جانتی ہے کہ وہ نقلی ہے اُس کے اصلی ہونے کا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے اس لئے اُس کے سلسلے میں اصلی اور نقلی ہونے کی کبھی کوئی بات نہیں ہوتی ہے۔لیکن جو چیز اصلی ہوتی ہے انسانی زندگی میں اُس کی بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے اسی لئے اُس چیز کے اصلی اور نقلی ہونے کی بات اوربحث ہمیشہ ہوتی رہتی ہے۔ایک زمانہ تھا جب ‘‘ویاپا ر ’’نام کا ایک کھیل بچے اور نوجوان کھیلتے تھے۔اس میں مکان، جائیداد اور سامان ہوا کرتے تھے جن کو نقلی نوٹوں کے ذریعہ خریدا اوربیچا جاتا تھا اور کھیل کے نتیجے میں کوئی کروڑ پتی بن جاتا تھا اور کوئی مفلس بن جاتا تھا۔اسی طرح بچوں کے لئے نقلی نوٹ بھی چھاپے جاتے تھے جو اصلی جیسے ہی ہوتے تھے۔ان نوٹوں کے متعلق اصلی اور نقلی ہونے کی بحث تو کیا کوئی بات بھی نہیں ہوتی تھی۔لیکن حکومت جو اصلی نوٹ چھاپتی ہے اُس کے متعلق ہمیشہ اصلی اور نقلی ہونے کی باتیں ہوتی رہتی ہیں۔
نقلی نوٹ کے مقابلے میں اگر کسی آدمی کے اصلی سرکاری نوٹ کی جگہ سرکاری نوٹ جیسا نقلی نوٹ ہے تو ایسے نوٹ کے مالک کو دو نقصان ہوگا ۔ایک تو یہ اُس کی کل جمع پونچی ردی کی ٹوکری میں چلی جائے گی اور وہ دولت مند کی جگہ دیوالیہ بن جائے گا۔یہ اتنا بڑا اور بھاری نقصان ہے جس کو برداشت کرنا تو دور کی بات ہے کوئی ایسا سوچ بھی نہیں سکتا ہے کہ وہ دیوالیہ بن جائے۔دوسری بات یہ کہ نقلی سرکاری نوٹ رکھنا ایک سنگین جرم ہے اور جس کے پاس سرکاری نقلی نوٹ پایا جائے گا پولس اُس کو فوراً گرفتار کر لے گی اور وہ اُس وقت تک نہیں چھوٹ پائے گا جب تک یہ نہ معلوم ہو جائے کہ یہ نوٹ کہاں سے آئے اور کن لوگوں نے ایسے نقلی نوٹ چھاپنے کی جرأت کی۔یعنی کھیل والے نقلی نوٹ رکھنے میں کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے لیکن اصلی سرکاری نوٹ اگر نقلی ثابت ہوئے تو پھر ایسے شدید نقصان ہونے کا ڈر ہے جو ہر کسی کو دہلاتا اور ہوش اڑاتا رہتا ہے۔بالکل اسی طرح دنیا میں جتنے بھی مذہب اور نظریات پائے جاتے ہیں وہ انسانوں کے بنائے ہوئے ہیں اُن کا آسمانی دنیا سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔اسی وجہ سے ایسے مذہب اور نظر یے کے ماننے والوں کے درمیان اصلی اور نقلی کی کبھی کوئی بات ہوتی ہی نہیں ہے۔لیکن اسلام کسی انسان کے دماغ کی پیداوار نہیں ہے بلکہ یہ آسمان سے بھیجا ہوا اُس اللہ رب العزت کا دین ہے جو خالق بھی ہے یعنی سب کچھ اُسی نے بنایا ہے اور اس کام میں کوئی اُس کا شریک یا مددگار نہیں ہے۔یہ اُس خالق کائنات کا بھیجا ہوا انسانوں کے زندگی گزارنے کا قانون ہے جو اپنی تمام مخلوقات کا تنہا اوراکیلا مالک ہے۔ اُس کی سلطنت اور حکومت میں اُس نے کسی کو اپنا ساجھے دار یا مددگار نہیں بنایا ہے۔وہ ایسا طاقتور اور قدرت والا ہے کہ وہ ہر لمحہ اپنی سلطنت اور حکومت کی نگرانی خود کر رہا ہے۔اس کام میں بھی وہ کسی دوسرے کا محتاج نہیں ہے۔اپنی حکومت کی ہر شئے کو وہ ہر وقت دیکھ رہا ہے،اپنے ہر مخلوق کی فریاد سن رہا ہے اور جواب دے رہا ہے،کون کہاں پر کس حال میں ہے سب کی اُس کر ہر لمحہ خبر ہے۔خالق اور مالک ہونے کے سا تھ ساتھ وہ اپنی سلطنت اور حکومت کا حاکم بھی ہے ۔اُس کی سلطنت میں صرف اُس کا حکم چلتا ہے اوراُس کے فیصلے اور اجازت کے بغیر کوئی چیز حرکت تک کرنے کی لیاقت اور صلاحیت نہیں رکھتی ہے۔ حکومت کا کاروباراور انتظام چلانے میں کسی کام کے لئے اُس کو سوچنا، منصوبہ بنانا اور انتظام نہیں کرنا پڑتا ہے۔ وہ صرف حکم دیتا ہے کہ‘‘ ہو جا اورجو وہ چاہتا ہے ہو جاتا ہے۔’’وہ اتنی طاقت اور قوت کا مالک ہے کہ اُس نے اپنے نافرمان بندے شیطان کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ انسانی دنیا میں مکمل آزادی اور اختیار کے ساتھ اللہ کے بندوں سے اللہ کی نافرمانی اوربغاوت کرائے اور اس جرم پر وہ شیطان کو فوراً کوئی سزا بھی نہیں دیتا ہے ۔شیطان کو اُس کے جرم کی سزا اُس وقت ملے گی جب یہ کائنات مٹا دی جائے گی اور ایک نئی دنیا پیدا ہوگی جس میں اللہ کے تمام نافرمان اورگنہ گار بندے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں آگ میں جلتے رہنے کی سزا کے حقدار ہوں گے اور اُس کے سچے مومن، متقی،فرماں بردار اور محسن بندے ایسی جنت میں رہیں گے جن کا ذکر قرآ ن اور حدیث میں جگہ جگہ موجودہے۔
اسی تصور کی بنیاد پر کہا جاتا ہے کہ دوسرے مـذہب کے ماننے والے اللہ کے نافرمان، نالائق، احسان فراموش اور مجرم بندے ہیں اُن کو تو ہر حال میں جہنم میں جانا ہی ہے۔اُن کے متعلق کیا سوچا جائے۔سوچنا تو اُن کے متعلق ہے جو اصلی دین اسلام کے ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن اصلی سرکاری نوٹ کی جگہ نقلی کھیل والے نوٹ بن کر دنیا میں زندگی گزار رہے ہیں۔اور اس غلط فہمی اور بھرم میں مبتلا ہیں کہ موت کے بعد وہ جنت میں جائیں گے۔دنیا کے خاتمے اور قیامت آنے کے بعد اُن کو ایسا نقصان اور گھاٹا ہونے وال ہے جس کا نہ کوئی علاج ہوگا نہ اُن پر سے بلا ٹلے گی۔
علم دین سے انجان مسلمانوں کو یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ اصلی مسلمان اورمومن بننے کے لئے اللہ کی کتاب قرآن کے قانون کے مطابق پوری زندگی گزارنا کتنا ضروری ہے۔وہ قرآن کی تعلیم سے انجان اور غافل رہ کر اللہ کے نافرمان بندوں جیسی زندگی گزار رہے ہیں اور اصلی نوٹ کی جگہ نقلی نوٹوں سے اپنی جیبیں بھر رہے ہیں۔
دیکھئے ایسے لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں کیا کہتا ہے اور پیارے نبی ﷺ کیا بتاتے ہیں:
(۱) ‘‘اورجو میرے ذکر(قرآن)سے منہ موڑے گا اُس کے لئے دنیا میں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اٹھائیں گے۔ ’’(طٰہٰ : ۱۲۴)…………کہا جارہا ہے کہ نقلی مسلمان چاہے کتنا بھی پڑھا لکھا اور دولت مند کیوں نہ ہوجائے اُس کی دنیا کی زندگی آفتوں اور مصیبتوں سے بھری ہوگی اور وہ قیامت میں دیوالیہ ہو جائے گا۔
(۲) (اُن سے کہا جائے گا)نعمت ایمان پانے کے بعد بھی تم نے کافروں جیسی زندگی گزاری ؟ اچھا تو اب ایمان کی نعمت سے کفر (ناقدری)کرنے کے بدلے میں عذاب کا مزا چکھو۔ (آل عمران:۱۰۶)
ض جب یہ لوگ قیامت کے دن اللہ کے سامنے کھڑے ہوں گے تب اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ ہم نے تم کو مسلمان گھر میں پیدا کرکے سچا اوراصلی مسلمان بننا آسان بنا دیا تھا تب بھی تم نے کافروں جیسی نافرمانی اور بغاوت ولی زندگی گزاری ؟ اچھا تو میرے انعام کی تم نے جو ناقدری اوربے عزتی کی ہے اُس کے نتیجے میں ہمیشہ ہمیشہ کا عذاب چکھو۔
(۳) رہے وہ لوگ جنہوں نے کفر کا رویہ اختیار کیاتو اللہ کے مقابلے میں اُن کو نہ اُن کا مال کچھ کام دے گا نہ اولاد،وہ تو آگ میں جانے والے لوگ ہیں اور آگ ہی میں ہمیشہ رہیں گے۔( آل عمران:۱۱۶)
ض مسلمان ہوتے ہوئے کافروں جیسی زندگی گزارنے والے مسلمان اپنے کمائے ہوئے حرام مال اور اپنی دنیا دار اولاد پر فخر و غرور میں مبتلا رہتے ہیں، لیکن قیامت میں اُن کا ناجائز کمایا ہوا مال اور اُنہیں کی طرح اللہ کی نافرمانی کرنے والی اُن کی اولاد اُن کے کچھ کام نہ آئے گی۔
(۴) کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو اور پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں اُن کی سزا اس کے سوااور کیا ہے کہ وہ دنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار ہو کر رہیں اور آخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دیے جائیں۔ اللہ اُن کی حرکات سے بے خبر نہیں ہے۔(البقرہ: آیت ۵ ۸)
ض ان نقلی مسلمانوں میں جو لوگ نمازی اورحاجی کہلاتے ہیں اور دعا کی پابندی کرتے ہیں اور دین پسند اور مذہبی سمجھے جاتے ہیں اُن سے کہا جائے گا کہ تم نے قرآن کی کچھ باتیں مانیں اور زیادہ تر باتوں کا انکار کر دیا۔یعنی نمازی بن گئے اور دعائیں کرنے لگے لیکن پوری زندگی اسلا م کے قانون کے مطابق گزارنے کا جو حکم دیا گیا تھا اُس کی کھلم کھلا نافرمانی کرتے رہے۔تمہارے دکھاوے کی یہ نماز ، دعا اور حج آج تمہارے کچھ کام نہیں آئے گا اور تمہاری حیثیت مومن و مسلم کی جگہ کافر و مشرک جیسی ہے جاؤ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم کی آگ میں جلتے رہو۔ہم تمہاری تمام حرکتوں کو دیکھ رہے تھے اور تمہاری ساری شیطانیوں اور بدمعاشیوں کو ہمارے فرشتے ریکارڈ تیار کر رہے تھے۔
(۵) اوراے نبی! ان کے سامنے اُس شخص کا حال بیان کرو جس کو ہم نے اپنی آیات کا علم عطا کیا تھا مگر وہ اُن کی پابندی سے نکل بھاگا۔آخر کار شیطان اُس کے پیچھے پڑ گیا یہاں تک کہ وہ بھٹکنے والوں میں شامل ہو کر رہا۔ اگر ہم چاہتے تواُسے ان آیتوں کے ذریعہ سے بلندی عطا کرتے، مگر وہ تو زمین ہی کی طرف جھک کر رہ گیا اور اپنی خواہش نفس ہی کے پیچھے پڑا رہا،لہذا اُس کی حالت کتے کی سی ہو گئی کہ تم اُس پر حملہ کرو تب بھی زبان لٹکائے رہے اور اُسے چھوڑ دو تب بھی زبان لٹکائے رہے۔ یہی مثال ہے اُن لوگوں کی جوہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں۔تم یہ حکایات اُ:ن کو سناتے رہو شاید کہ یہ کچھ غو روفکر کریں۔ (اعراف:آیات۱۷۶/۱۷۵)
ض ایسے لوگ جنہوں نے اسکول میں نہیں جا کر کسی دینی درس گاہ میں تعلیم حاصل کی ،عالم ، فاضل، حافظ ، قاری بن کر نکلے،لیکن دین پرعمل کرنے اور لوگوں کو دین کی تعلیم دینے کی جگہ اسکول اورکالج کی تعلیم حاصل کرکے عام دنیا داروں کی طرح دنیا کمانے میں مشغول ہو گئے۔نہ چہرے پر داڑھی رہی نہ سر پہ ٹوپی جس سے مسلمان کی پہچان ہو سکے ،ایسے لوگوں کے متعلق اوپر کی آیت میں اُن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کتنی خطرناک بات کہہ رہا ہے،سوچئے اور ایسے عالم ،فاضل، حافظ، قاری، مولوی اور مولانا کی حیثیت کو پہچانئے جن کو اللہ تعالیٰ کتا کہہ رہا ہے۔سورہ جمعہ میں ایسے لوگوں کو گدھا بھی کہا گیاہے۔جب اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ہی ان کے کتا اور گدھا ہونے کا اعلان کر دیا تو کیا کتے اور گدھے جنت میں جائیں گے ؟
یہاں تک تو مسئلے اور اُس کی سنگینی کی بات کی گئی اب اگر اس کا حل نہ بتایا جائے تو بات ادھوری رہ جائے گی۔ اس لئے پڑھئے کہ اسی قرآن میں اللہ تعالیٰ سارے انسانوں کو کیا ہدایت دے رہا ہیـ:
(۶) اور یہ کچھ ضروری نہ تھا کہ اہل ایمان سارے کے سارے ہی نکل کھڑے ہوتے، مگر ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کی آبادی کے ہر حصے میں سے کچھ لوگ نکل کر آتے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے اور واپس جاکر اپنے علاقے کے باشندوں کو خبردار کرتے تا کہ وہ (غیر مسلمانہ روش سے) پرہیز کرتے(توبہ:۱۲۲)…………دینی علم حاصل کرنے کا طریقہ یہ بتایا جارہا ہے کہ ہر گاؤں،بستی اور شہر کے کچھ لوگ سب کام چھوڑ کر دین کا مکمل علم حاصل کریں اور پھر اپنے علاقے میں واپس جا کر اپنے لوگوں کودین کی سچی اور اصلی تعلیم دیں تاکہ وہ غیر مسلم بن کر زندگی نہ گزاریں۔دو سو سال پہلے مدرسے دین کا قلعہ بن کر یہ فرض انجام دے رہے تھے اور وہاں سے فارغ ہونے والے بادشاہوں کی طرح فقیرانہ زندگی گزارتے ہوئے عوام میں دین پھیلا رہے تھے،لیکن آج معاملہ بالکل الٹا ہو گیا۔اب عام طور پر مدرسے کے فارغین کا جو معمول بن چکا ہے اُس کا ذکر اوپر کیا جاچکا ہے۔
(۷) اور اُس شخص سے اچھی بات اورکس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں۔ (ح م السجدہ:۳۳)
…………پھر یہ کہ سچے اور اصلی مسلمان کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے اخلاق، کردار، معمولات،معاملات، تعلقات،سماجی اور معاشی زندگی سے اپنے قریب رہنے والوں تک دین کی باتیں زبان سے اور عمل سے پہنچائے تاکہ وہ لوگ بھی اُس کے جیسے سچے اور اصلی مسلمان بنیں۔
(۸) حضرت عثمان ؓ روایت کرتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا :تم میں بہترین لوگ وہ ہیں جو قرآن کا علم سیکھیں اور لوگوں کو اسے سکھائیں۔ (بخاری)………… کون نہیں چاہتا ہے کہ سماج میں سب سے اچھا آدمی کہلائے۔نبی ﷺ بتا رہے ہیں کہ سماج کا سب سے اچھا آدمی کون ہو سکتا ہے۔
(۶) معاذ جہنیؓ رسول اللہ ﷺکا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ جو شخص قرآن پڑھتاہے اور اس کے مطابق عمل کرتا ہے، قیامت کے روز اُس کے والدین کو ایک تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی ایسی ہوگی کہ اگر سورج بھی تمہارے گھروں میں اترآئے تو اُس کی روشنی کی برابری نہ کر سکے۔پھر تمہارا کیا خیال ہے کہ جو شخص خود قرآن کے مطابق عمل کرنے والا ہے اُس پرا للہ تعالیٰ کی کیا کچھ عنایات ہوں گی۔(احمد، دارمی)…………یہاں قرآن کے حافظ کو کیسا ہونا چاہئے یہ بتایا جا رہا ہے۔لیکن آج کل ہر جگہ قرآن کے ایسے حافظ ملتے ہیں جنہوں نے قرآن کو صرف رٹ لیا ہے نہ اس کا معنی اور مطلب جانتے ہیں، نہ قرآن کے احکام پر عمل کرتے ہیں اور نہ ان احکام اور ہدایات کے متعلق کسی کو تعلیم دیتے ہیں۔