حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺنے فرمایا:جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ (رمضان کے مہینے میں)قیام کیا،اُ س کے پچھلے سارے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔(بخاری،مسلم)

پچھلے مضمون میں یہ بتایا جا چکا ہے کہ رمضان کے روزے ایسی اعلیٰ، نرالی اور انوکھی عبادت ہے جس کے ذریعہ انسان کی پچھلی زندگی کے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔اسی طرح یہاں نبی ﷺ فرما رہے ہیں کہ جو شخص قیام لیل یعنی تراویح کی نماز ایمان اور احتساب کی شرطوں کے ساتھ ادا کرے گا روزوں کی طرح اس عمل سے بھی اُس کے پچھلے سارے گناہ معاف ہو جائیں گے۔تراویح کی نماز کے متعلق جو حدیث بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے:۔
’’حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺنے ایک رات مسجد میںنماز پڑھی تو بہت سے لوگ نبیﷺ کے ساتھ شامل ہو گئے۔ دوسری رات نبیﷺ نے نماز پڑھی تو لوگ اور زیادہ ہو گئے۔پھر تیسری یا چوتھی رات لوگ جمع ہوئے تو نبیﷺباہر تشریف نہ لائے۔جب صبح ہوئی تو فرمایا: میں نے رات دیکھ لیا تھا کہ تم لوگ جمع ہوئے ہو لیکن مجھے صرف ایک چیز نے باہر آنے سے روک دیا اور وہ یہ کہ یہ نماز تم پر فرض نہ کر دی جائے۔ یہ قصہ رمضان میں پیش آیا تھا۔‘‘(متفق علیہ)یہ وہ واحد حدیث ہے جس کی بنیاد پر تراویح کی نماز کا رواج عمل میں آیا :
رمضان کے مہینے میں رسول اللہﷺ کوئی نفل نماز پڑھ رہے تھے۔ مسجد میں بڑی تعداد میںاور نمازی بھی موجود تھے، چنانچہ وہ لوگ حضورﷺ کی اقتدا میں اس نماز میں شامل ہو گئے۔(۲)رسول اللہﷺنے لوگوں کو نماز کی دعوت نہیں دی تھی، لوگ خود سے اس نماز میں شریک ہو گئے تھے۔(۳)دوسرے روز اس نماز کا لوگوں کو علم ہوا تو اور زیادہ لوگ نماز کے لئے جمع ہو گئے۔ (۴)دو یا تین دن بعد رسول اللہﷺنے فرض ہوجانے کے اندیشے سے یہ نماز جماعت سے نہیں پڑھائی۔
اس حدیث سے ہمیں درج ذیل باتیں نہیں معلوم ہوتی ہیں:(۱)یہ نماز کس وقت پڑھی گئی، اس حدیث سے اس کا کچھ پتہ نہیں چلتا ہے۔وقت کا تعین صرف قیاس کی بنیاد پر ہو سکتا ہے۔(۲)یہ نماز کتنی رکعتیں پڑھی گئیں ؟ اس کا پتا بھی اس حدیث سے نہیں چلتا ہے۔(۳)یہ نماز کس سنہ کے رمضان کے مہینے میں پڑھی گئی یہ بھی اس حدیث سے نہیں معلوم ہوتا ہے۔(۴)اس نماز میں قرآن کہاں سے اور کتنا پڑھا گیا اس کا بھی کچھ پتہ نہیں چلتا ہے۔
ملت کا ایک طبقہ اس بات کا قائل ہے کہ تراویح کی نماز در اصل تہجد کی نماز ہے جو عام دنوں میں تہجد کے نام سے لیکن رمضان میں تراویح کے نام سے پڑھی جاتی ہے۔جب کہ پوری مسلم ملت اس تصور کی قائل ہے کہ تہجد کی نماز الگ ہے اور تراویح کی نماز الگ ہے۔یہ لوگ رمضان میں تہجد نہیں پڑھتے ہیں۔ اس کی جگہ تراویح پڑھتے ہیں۔ اور بڑے اہتمام کے ساتھ ۱۹ رمضان تک ہی تراویح پڑھتے ہیں۔ ۲۰ رمضان سے نماز کے شوقین تہجد پڑھتے ہیں اور نماز سے غافل تہجد اور تراویح دونوں سے بے نیاز ہو جاتے ہیں۔شب قدر میں تہجد جماعت سے پڑھی جاتی ہے اور اس کو تراویح کا بدل تصور کیاجاتا ہے۔صورت حال یہ ہے کہ خود اس گروہ میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو اس روش پر مطمئن نہیں ہیں، مگر چونکہ ایک خاص طریقے کے پیرو ہیں اس لئے مجبوراً اس پر عمل کرتے ہیں۔
اس بات پر سبھوں کا اتفاق ہے کہ تراویح کی اصطلاح ترویحہ سے نکلی ہے جس کا مطلب ہوتا ہے آرام کرنا۔ تراویح میں چار رکعت نماز پڑھنے کے بعد اگلی نماز شروع کرنے سے پہلے جو ٹھہرتے ہیں اور تسبیح پڑھتے ہیں اسی سبب سے اس نماز کا نام تراویح رکھا گیاہے۔تراویح کی چار رکعتوں کے بعد جو تسبیح پڑھتے ہیں وہ ایسی نہیں ہے کہ جو شخص اپنی پسند سے جیسی چاہے تسبیح پڑھ لے۔ ایک خاص تسبیح ہے جو تراویح کی نماز کے دوران پڑھی جاتی ہے۔تہجد کی نماز کے ساتھ ایسی کسی تسبیح کی قید نہیں ہے۔یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ تہجد اور تراویح دونوں الگ نمازیں ہیں۔
تہجد کی نماز کی رکعات طے شدہ نہیں ہیں کہ لازماً آٹھ رکعت ہی پڑھی جائیں گی۔تہجد کی نماز آٹھ رکعت بھی پڑھی جا سکتی ہے اور دو رکعت بھی پڑھی جاسکتی ہے۔اس نماز میں پورا قرآن ختم ہو جائے یہ بھی شرط نہیں ہے۔جبکہ تراویح کی نماز کی رکعات متعین ہیں یعنی کم سے کم آٹھ پڑھنی ہوںگی اور زیادہ سے زیادہ چالیس تک پڑھی جا سکتی ہیں۔پوری دنیامیں، حرم میں اور مسجد نبوی میں تراویح بیس رکعت پڑھی جاتی ہے۔رکعات کا فرق اور قرأت کا طریقہ یہ بتاتا ہے کہ تہجد اور تراویح دونوں الگ نمازیں ہیں۔تہجد کی نماز جماعت سے نہیں پڑھی جاتی ہے۔ یہ تنہا پڑھی جانے والی نماز ہے۔ اس کا تنہا خفیہ طور پر پڑھنا افضل ہے۔تراویح کی نمازعام طور پر جماعت سے پڑھی جاتی ہے۔
تہجد کی نماز کے سلسلے میں ایسی کوئی روایت نہیں ملتی ہے کہ اس کے ذریعہ زندگی کے پچھلے سارے گناہ معاف ہو جائیں گے۔ جب کہ تراویح کی نماز کے متعلق کہا جارہا ہے کہ اس کی وجہ سے پچھلے سارے گناہ معاف ہو جائیں گے۔
سب جانتے ہیں کہ تین یا چار دن کے بعد رسول اللہﷺ نے تراویح کی نماز جماعت سے نہیں پڑھی۔ نبیﷺ بھی اور صحابہ بھی تراویح کی نمازرمضان میں زندگی بھر پڑھتے رہے۔صحابہ کہیں تنہا اور کہیں جماعت سے پڑھا کرتے تھے۔نبی ﷺ کے بعد حضرت ابوبکرصدیقؓ کی خلافت تک تراویح کی نماز باقاعدہ جماعت سے نہیں پڑھی گئی۔حضرت عمرؓ کی خلافت کے پہلے دور میں بھی یہی طریقہ رہا، لیکن بعد میں اُنہوں تفقہ فی الدین سے کام لیتے ہوئے اجتہاد کیا کہ تراویح کے فرض ہونے کا اندیشہ نبیﷺ کو ہوا تھا جب کہ شریعت کے احکام نازل ہو رہے تھے۔ اب تو نبیﷺ نہیں ہیں اور احکام بھی جتنے آنے تھے آ چکے۔اب تراویح کی نماز کے فرض ہوجانے کا اندیشہ نہیں رہا۔نماز دراصل اہل ایمان کے بیچ اجتماعیت اور اتحاد پیدا کرنے کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے اس لئے اب تراویح بھی جماعت سے پڑھنی چاہئے۔چنانچہ اُنہوں نے حضرت اُبئی بن کعبؓ کو جماعت سے نماز پڑھانے کا حکم دیا اور اس کے بعد سے آج تک ساری دنیا کے مسلمان تراویح کی نماز جماعت سے پڑھتے چلے آ رہے ہیں۔
تراویح کی نماز میں پورا قرآن ختم کیا جائے ایسی کوئی روایت نہیں ملتی ہے۔ہاں یہ روایت ضرور ملتی ہے کہ نبیﷺ ہر سال جبرئیل علیہ السلام کو پورا قرآ ن سنایا کرتے تھے۔چنانچہ جس آدمی کو پورا قرآن یاد ہے اُسے رمضان میں پورا قرآن کسی کو سنانا چاہئے۔جن لوگوں کوپورا قرآن یاد نہیں ہے اُنہیں پورا قرآن سننا چاہئے کہ یہ بھی نیکی کا کام ہے۔چنانچہ ان تمام باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے بعد کے لوگوں نے یہ اجتہاد کیا کہ تراویح کی نماز جماعت سے کسی حافظ قرآن کے پیچھے پڑھی جائے۔ اس سے تین فائدے ہوں گے۔حافظ قرآن لوگوں کو پوراقرآن سنانے کی نبیﷺ کی سنت پر عمل کر لے گا۔جنہیں پورا قرآن یاد نہیں ہے وہ پورا قرآن سن لیں گے اور جو لو گ پانچ وقت کی نماز کے پابند نہیں ہیں لیکن رمضان میں پانچ وقت کی نمازیں پڑھنے لگتے ہیں وہ بھی جماعت میں شامل ہو کر تراویح پڑھنے کا عمل خیر کر لیں گے۔
تراویح کے متعلق حکم ہے کہ رمضان کا چاند دیکھ کر تراویح شروع کرو اور عید کا چاند دیکھ کر تراویح پڑھنا چھوڑ دو۔یعنی رمضان کے پورے مہینے میں تراویح پڑھنی ہے۔جب مسلمان دین سے جڑے ہوئے تھے، نیک اور صالح تھے، دنیا پرستی اور دولت کی لالچ کی بیماریوں سے محفوظ تھے تو ہر مسجد میں۲۸رمضان تک تراویح کی نمازیں ہوا کرتی تھیں اور لوگ ذوق و شوق کے ساتھ تراویح کی نماز اور قرآن کی قرأت سے فیض یاب ہوتے تھے۔
پھر رفتہ رفتہ مسلمان دین و شریعت سے دو ر ہوتے گئے اور عبادت کا شوق ان کے اندر سے مٹنے اور ختم ہونے لگا۔پرانے دنوں میں مسلمان سال بھر کپڑے نہیں بناتے تھے۔ عید میں نئے کپڑے بنتے تھے ۔ ان کپڑوں میں عید بھی ہو جاتی تھی اور شادیوں میں بھی ان کپڑوں سے کام چل جاتا تھا کیونکہ عید کے مہینے میں عام طور پر مسلم سماج میں شادیاں ہوتی تھیں۔کپڑے کے دکاندار سال بھر کی کمائی اسی رمضان کے مہینے میں کرتے تھے۔دکانیں آٹھ نو بجے رات تک کھلی رہتی تھیں۔کپڑے کے یہ تاجر عام طور پر نماز کے پاند اور حافظ قرآن ہوتے تھے۔انہوں نے اپنی آسانی کے لئے یہ انتظام کیا کہ کپڑے کی ایک بڑی دکان میں سارے کپڑے کے دکاندار جمع ہوتے اور سات دن میں بیس رکعت تراویح میں پورا قرآن پڑھ اور سن لیتے تھے۔اس کے بعد ۲۲یا۲۳ رمضان تک چھوٹی چھوٹی سورتوں والی تراویح آسانی سے تراویح میں پڑھ لیا کرتے تھے۔یہ عمل ایک خاص مجبوری اور ضرورت کے تحت ہوتا تھا۔جب دوسرے لوگوںکو معلوم ہوا تو وہ بھی ضرورت کے تحت نہیں سہولت پسندی کے تحت سات دن کی اس تراویح میں شامل ہونے لگے۔ پھر تعداد اتنی بڑھی کہ دکان میں لوگوں کی گنجائش نہیں ہونے لگی چنانچہ ایک بڑے میدان میں یہ لوگ سات دین کی تراویح پڑھنے لگے۔جو نماز کے پابند تھے وہ تو بعد کے دنوں میں اپنے گھر میں یا مسجد میں چھوٹی سورتوں والی تراویح رمضان بھر پڑھتے رہے، لیکن جو نماز کے پابند نہیں تھے اُنہوں نے سات دن کے بعد تراویح پڑھنا چھوڑ دیا۔ایک غلط بات یہ مشہور ہو گئی کہ اصل تراویح تو پورے قران والی تراویح ہے۔چھوٹی سورتوں والی تراویح کی بہت زیادہ اہمیت نہیں۔اس تراویح کے لئے ایک نیا نام راج ہو سورہ تراویح۔ تصور یہ بن گیا کہ قرآن والی تراویح فرض ہے اور سورہ ت تراویح نفل ہے۔چونکہ بڑی تیزی کے سات یہ رواج چل پڑ ا اور دنیا دار حافظ لوگوں کو بھی اس میں فائد ہ یہ نظر آیا کہ سات سات دن کی تراویح کئی جگہ پڑھائیں گے تو آمدنی زیادہ ہو جائے گی۔ یعنی دنیا دار نمازیوں اور عالم و حافظ لوگوں نے تراویح جیسی پاکیزہ عبادت کو تجارت بنا دیا اور اب امت کی بہت بڑی اکثریت مہینہ بھر تراویح پڑھتی ہی نہیں ہے۔
پھر ہوا کہ ہر حافظ قرآن رمضان میں روزگار کی طرح تراویح پڑھانے کا کام ڈھونڈنے لگا۔قرآن کو حفظ کرنے کا معاملہ یہ ہے کہ جب تک حافظ روزانہ ایک پارہ قرآن زبانی نہیںپڑھے گا اُس کو قرآن یاد نہیں رہے گا، وہ قرآن بھول جائے گا۔روزی روٹی چکر میں حافظ لوگ ایسا الجھے کہ قرآن پڑھنا ہی بھول گئے اور آہستہ آہستہ حفظ کیا ہوا قرآ ن بھولتے چلے گئے۔چنانچہ کچھ اپنا عیب چھپانے کے لئے اور کچھ سات دن میں قرآن ختم کرنے لئے تراویح میں قرآ ن ایسے طوفا ن میل کی رفتار سے پڑھنے لگے کہ نمازیوں کسے سوائے یعلمون اور تعلمون کے کچھ سنائی نہیں دیتا تھا۔جو اچھے اور نیک نمازی تھے اُنہیں ایسے حافظوں کے پیچھے تراویح پڑھتے ہوئے کوفت ہونے لگی اور وہ بد دلی کے ساتھ تراویح پڑھنے لگے۔
غور فرمائیے کہ بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ جو نماز زندگی کے پچھلے تمام گناہوں کی بخشش کا ذریعہ تھی، اُس کے ساتھ سوتیلے پن کا سلوک ہونے لگا کہ جیسے تیسے بلا ٹال دی جائے۔اور پھر تراویح کی اہمیت اور عظمت کی جگہ لوگ اس پر بحث کرنے لگے کہ تراویح بیس رکعت پڑھی جائے یا آٹھ رکعت۔علامہ اقبال نے اسی حالت پر یہ شعر لکھا تھا کہ:یہ امت روایات میں کھو گئی-حقیقت خرافات میں کھو گئی۔
اب جب کہ تراویح کی نماز ایک رسم بن کر رہ گئی ہے ،جو سچے اور اچھے ، نیک، صالح، خوف خدا رکھنے والے اہل ایمان ہیں اُن کے لئے بہتر یہ ہے کہ وہ مسجد میں عشا کی نماز پڑھ کر گھر آ جائیں،جتنا قرآن یاد اُسے تراویح میں پڑھیں۔اپنے پیچھے پورے گھر والوں کو ترایح پڑھائیں۔امام کے پیچھے مرد لوگوں کی صف ہو اور اُس کے پیچھے عورتو ں کی صف ہو۔اس طرح گھر کے سارے لوگ تراویح کی نماز پڑھنے کی عبادت بھی کر لیں گے، نماز بھی آسانی کے ساتھ دل اور دماغ کی مکمل آمادگی اور اللہ سے رجوع والی ہوگی آسانی بھی پیدا ہو جائے گی۔نبیﷺ کا فرمان ہے کہ ’’آسانی پیدا کرو تنگی پیدانہ کرو۔‘‘
ہو سکتا ہے کہ کچھ جاہل قسم کے بقراط لوگ یا مولوی صاحبان اس پر اعتراض کریں، لیکن اُن سے بحث کرنے کی جگہ اُن سے کہئے کہ حضرت پہلے کچھ قرآن و سنت اور احکا شریعت کا مطالعہ کر لیجئے پھر مفتی بننے کا شوق پورا کیجئے گا۔ ہم نے کب آپ سے فتویٰ مانگا ہے کہ آپ فتویٰ چھانٹ رہے ہیں۔آپ کو آپ کا فتویٰ مبارک ہو۔ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دیجئے۔
سحری کے وقت جب آنکھ کھلے تو ضروریات سے فارغ ہو کر کم سے کم دورکعت یا زیادہ سے زیادہ آٹھ رکعت تہجد بھی پڑھ لیا کیجئے۔ رمضان عبادت کا مہینہ ہے۔وتر کو آخری نماز بنانے کا حکم ہے ، لیکن یہ فرض نہیں ہے۔صحابہ میں کچھ لوگ جو تہجد کے پابند تھے اُن میں سے کچھ عشا کی نماز کے ساتھ وتر پڑھ لیتے تھے اور پھر رات میں تہجد بھی پڑھا کرتے تھے اور کچھ صحابہ عشا کے ساتھ وتر نہیں پڑھ کر تہجد کے وقت وتر کو آخری نماز بنایا کرتے تھے۔دونوں کی طرح کی مثالیں موجود ہیں۔اللہ اور اُس کے پیارے نبی ﷺ نے ہم کو ایسا آسان دین دیا ہے جس پر عمل کرنے میں کوئی زحمت اور مشکل پیدا ہو ہی نہیں سکتی ہے۔ لیکن اصلی او ر خالص دین اسلام کی جگہ فرقہ پرست مولویوں نے یہودیوں کی طرح دین اسلام کو اتنا مشکل بنا دیا ہے کہ ہر آدمی شریعت کی پابندی کرنے سے گھبراتا ہے۔اگر اہل علم دین کی تعلیم کو عام کرنا شروع کر دیں اور ملت کے لوگ اصلی اسلام سے واقف ہو جائیں تو شریعت کی خلاف ورزی کی جگہ اُن کو شریعت کی پابندی میں آسانی دکھائی دینے لگے گی۔