نئی دہلی: ایسے میں جب کسی بھی پارٹی کے مسلم لیڈر پارٹی کے اندر اپنے قوم کی حصہ داری مانگنے سے اس لئے خوف کھاتے ہیں کہ کہیں خود انہیں حاشئے پر نہ ڈال دیا جائے۔ وہ خود اپنے ٹکٹ کے لئے ہی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں یا پارٹی کے سینئر لیڈروں کی چاپلوسی میں لگے رہتے ہیں۔ نیتجہ یہ ہوتا ہے کہ نہ انہیں خود ٹکٹ ملتا ہے اور نہ ہی ان کے قوم کی مناسب نمائندگی دی جاتی ہے۔
جنتادل یو اور راشٹریہ جنتادل میں بھی ایسا کوئی لیڈر نظر نہیں آتا ہے جو اپنے قوم کی مناسب نمائندگی کی بات کرتا ہو۔ نتیجہ یہ ہے کہ نہ صرف ان پارٹیوں میں مسلم لیڈر حاشئے پر ہیں بلکہ ایوان سے لے کر پارٹی کے مین باڈی تک میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی نمائندگی سنگل ڈیزٹ سے میں ہی ہے۔
بہار سے تعلق رکھنے والے آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے رکن انتخاب عالم مذکورہ مسلم لیڈروں سے بالاتر ہیں۔ وہ جب سے سیاست میں ہیں اپنے قوم کی ترقی کے لئے سرگرداں رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ بہاراقلیتی کمیشن کے کارگذار چیئرمین بنائے گئے تو وہ نہ صرف مسلمانوں اور مسلم مذہبی رہنماؤں سے ملے بلکہ گرودوارہ، چرچ تک میں جاکر ان کے مذہبی رہنماؤں سے ملاقات کی اور ان کے مسائل سے روشناس ہوئے۔ ساتھ ہی ان کے مسائل کے سدباب کے لئے ہر ممکن کوشش کی۔
یہی نہیں وہ ہمیشہ سے پارٹی اعلاکمان کے سامنے نہ صرف پارٹی کی زمینی حقیقت بلکہ مسلمانوں کے موجودہ حالات سے واقف کراتے رہے ہیں۔ سونیا گاندھی سے لے کر راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی تک کو انہوں نے مختلف موقعوں پر حقیقت حال سے واقف کرایا۔
اسی کڑی میں آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے رکن انتخاب عالم نے کانگریس کے قومی صدر ملکارجن کھرگے سے ملاقات کی اور ان سے بہار میں مسلم آبادی کی موجودگی کے پیش نظر پارلیمانی امیدواروں کو نشستوں کی الاٹمنٹ کے لیے روڈ میپ تیار کرنے کی درخواست کی۔ مسٹر عالم کی باتوں کو بغور سننے کے بعد کانگریس صدر ملکارجن کھرگے نے باظابطہ ٹویٹ کر اس ملاقات کا ذکر کیا اور کہا کہ ” کانگریس ملک کی طاقت ہے۔ ہمارے محنتی اور جفاکش کارکن ہماری طاقت ہیں۔ آج اے آئی سی سی دفتر میں اپنے کارکنوں سے ملاقات کرتے ہوئے کانگریس کو مضبوط کرنے پر زور دیا۔ مجھے اس کھلی بحث میں ‘جنتا کے من کی بات’ کو جاننے کا موقع ملا۔ آئندہ بھی ایسی ملاقاتیں ہوتی رہیں گی۔”
صدر کھرگے سے ملاقات کے دوران مسٹر عالم نے اپنے عرضداشت میں کہا کہ ہم آپ کی توجہ ریاست بہار کی مسلم آبادی کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ بہار کی مسلم آبادی یو پی اے اتحاد کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔
مسٹر لالو پرساد یادو اور جے ڈی یو کے بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار اتنے عرصے سے اقتدار میں ہیں، اس دعوے کی ایک مضبوط مثال ہے۔
انہوں نے کہا کہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے، میں یہاں یہ بتانا چاہوں گا کہ 100 فیصد مسلم ووٹ کانگریس پارٹی اور دیگر اتحادوں کے حق میں آتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آپ بھی ریاست کرناٹک میں موجودہ اسمبلی انتخابات کے دوران مسلم ووٹوں کے بارے میں اس تجربے سے واقف ہوگئے ہیں جہاں مسلم آبادی نے کانگریس پارٹی کے حق میں 100 فیصد ووٹ دیا۔ یہاں تک کہ مسلمانوں نے جے ڈی ایس پارٹی کا بائیکاٹ کیا۔ اس عمل نے نہ صرف ریاست کرناٹک بلکہ پورے ملک میں یک طرفہ ووٹنگ کی ایک نئی مثال قائم کی ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ریاست کرناٹک میں مسلمانوں کے ذریعہ ثابت کی گئی اس نئے رجحان کو کوئی بھی نظر انداز نہیں کر سکتا۔
انہوں نے کہا کہ ریاست بہار میں کل 40 سیٹیں ہیں جہاں اصل مقابلہ یو پی اے اتحاد بنام بی جے پی ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے حقیقی نقطہ نظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں یہ کہوں گا کہ مسلم ووٹروں نے کبھی بھی خاص طور پر بہار میں بی جے پی کے حق میں ووٹ نہیں دیا۔
کرناٹک الیکشن کی طرح ایک نئی لائن آف ایکشن ترتیب دی گئی ہے اور 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے دوران مسلم طبقہ کے ذریعہ ووٹنگ کا وہی رجحان قائم کیا جائے گا، یہ میری ایماندارانہ نظریہ اور سوچ ہے۔
خاص طور پر ریاست بہار میں الگ سمیکرن ہے جہاں کم از کم 20 پارلیمانی حلقوں میں مسلمانوں کی بڑی آبادی ہے۔
مسٹر عالم نے کہا کہ اس لیے ایک زمینی سطح کا پارٹی ورکر ہونے کے ناطے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ تمام اتحادی جماعتوں کو ایمانداری کے ساتھ مل بیٹھ کر کم از کم 12 پارلیمانی حلقوں کے لیے سیٹوں کی تقسیم کے بارے میں تبادلہ خیال کریں۔ جو مسلم اقلیتوں کے لئے ان کی آبادی کے تناسب کی بنیاد پر ریزرو ہوں۔
اس سلسلے میں تحقیق پر مبنی روڈ میپ اور طریقہ کار پر بحث کی جائے اور دستاویزی شکل دی جائے۔
ریاست بہار میں پسماندہ طبقے کے ووٹ بہت ہی کم وقت میں بی جے پی کے حق میں بہت تیزی سے منتقل ہوئے ہیں۔ ہمیں ووٹ کی تبدیلی کے ایسے منظر نامے کے لیے بہت ہوشیار رہنا چاہیے جو یو پی اے کے لیے مہلک ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ میری گزارش ہے کہ جب آپ کم از کم 12 سیٹوں کے لیے مسلم اقلیتوں کے امیدواروں پر کھلے دل غور کریں گے تو اس کا اثر دیگر 28 انتخابی حلقوں پر بھی پڑے گا۔
مسٹر عالم نے کہا کہ یو پی اے اتحاد کے امیدواروں کے تئیں لوگوں میں جوش و جذبہ ہوگا اور یہ یقینی طور پر باقی 28 حلقوں میں بھی کام کرے گا اور نتیجہ خیز ہوگا۔
مسٹر عالم نے عرضداشت میں درخواست کی ہے کہ آپ سے میری عاجزانہ درخواست ہے کہ براہ کرم اس مسئلہ کو دوسری اتحادی پارٹی کے صدر کے ساتھ پہلے ہی اٹھائیں تاکہ 2024 کے لیے یو پی اے کے حق میں ایک مثبت ماحول بنایا جاسکے۔
دیکھنا یہ ہے کہ دیگر سیکولر پارٹیوں کے مسلم لیڈر انتخابی عالم کی طرح ہمت جٹا کر اپنی پارٹی سے مسلمانوں کے لئے آبادی کے تناسب سے سیٹ مانگتے ہیں یا نہیں۔