حدیث جبرئیل: حضرت عمرؓ بن خطاب بیان کرتے ہیںکہ ایک مرتبہ ہم بارگاہ رسالت میں حاضر تھے، اچانک ایک آدمی مجلس میں آیاجو عمدہ سفید لباس پہنے ہوئے تھا۔ اُس کے بال گہرے سیاہ تھے او ر چہرے سے سفر کی تکان ظاہر نہ ہوتی تھی لیکن حاضرین میںسے کوئی بھی اُس آدمی سے واقف نہ تھا۔ وہ آکر نبیﷺ کے برابراس طرح بیٹھا کہ آپ کے گھٹنے سے اپنا گھٹنا ملا لیااور نبی ﷺکے زانو پر اپنا ہاتھ رکھااورکہا اے محمد ﷺ مجھے اسلام کے بارے میں بتائیں:رسول اللہ ﷺنے فرمایا اسلام یہ ہے کہ تم شہادت دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺاللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرو،زکوٰۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھواورحیثیت ہوتو بیت اللہ کا حج کرو۔ یہ سن کر اُس نے کہا آپ نے سچ فرمایا۔یہ سن کر ہمیں تعجب ہو اکہ سوال بھی کرتا ہے اور جواب کی تصدیق بھی کرتا ہے۔سائل نے دوسرا سوال یہ کیا کہ مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے:نبی ﷺ نے فرمایا یہ کہ تم اللہ پر، ملائکہ پر کتابوں پر، رسولوں پر، یوم آخر پر اور تقدیر کے خیر و شر پر ایمان رکھو۔ اُس نے کہا سچ فرمایا آپ نے۔اس کے بعد اُس نے ایک اور سوال کیا کہ آپ مجھے احسان کے بارے میں بتائیے : نبیﷺنے فرمایا تم اللہ کی عبادت ایسے کرو جیسے تم اُسے دیکھ رہے ہو۔چونکہ تم اُسے نہیں دیکھ سکتے توتصور کرو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔اس کے بعد سائل نے کہا قیامت کے بارے میں بتائیے: نبی ﷺ نے فرمایاجس سے پوچھا جارہا ہے اُس کو اتنا ہی علم ہے جتنا پوچھنے والے کو علم ہے۔سائل نے کہا قیامت کی نشانیوں کے متعلق بتائیے:نبیﷺنے فرمایا پہلی نشانی یہ ہے کہ باندی اپنے آقا کو جنم دے گی، تم دیکھو گے کہ ننگے پیروں اور ننگے بدن رہ کر بکریاںچرانے والے مفلس عالی شان محلوںمیں عیش کریں گے۔

حدیث کے راوی حضرت عمرؓکہتے ہیں کہ سوال کر کے وہ آدمی تو چلا گیا،لیکن میں کچھ دیر بیٹھا رہا تو نبیﷺ نے مجھ سے فرمایا:جانتے ہو وہ سوالات کرنے والا کون تھا ؟ میں نے کہا اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔نبیﷺنے فرمایا :وہ جبرئیل امین تھے جو تمہیں دین اسلام کی تعلیم دلانے آئے تھے۔(مسلم)یہی روایت ابو ہریرہؓ سے بھی تھوڑے سے فرق کے ساتھ روایت ہوئی ہے۔اُن کے الفاظ ہیںکہ جب تم ننگے پیروں والوں، برہنہ رہنے والوں، گونگے بہروںکو خطہ زمین کا حاکم دیکھواور پانچ باتیں ایسی ہیں جن کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیںپھر اس آیت کی تلاوت فرمائی:(جس کا ترجمہ یہ ہے)اللہ کو قیامت کا علم ہے،اوروہی بارش برساتا ہے،آخر آیت تک۔ (بخاری،مسلم)
قیامت تک کیا ہوگا: حضرت حذیفہؓنے کہا کہ ہمارے درمیان رسول اللہ ﷺایک جگہ پر کھڑے ہوئے اورکھڑے ہونے کے وقت سے قیامت تک کی کوئی چیز نہ چھوڑی جواُنہوں نے بیان نہ کر دی۔کسی نے یاد رکھا اور کوئی اُسے بھول گیا۔ جب کوئی بات ظاہر ہوتی تو میرے ساتھیوں میں سے کوئی وہ بات بتا دیتا جس کو میں بھول گیاہوتا تو مجھے یاد آ جا تی جیسے غائب آدمی کا چہرہ یاد آ جاتا ہے اور میں اُسے دیکھ کر جان لیتا۔(بخاری، مسلم)
سفید اورسیاہ دل: اُن سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺکو فرماتے ہوئے سنا:فتنے دلوں پر پیش کئے جاتے ہیں جیسے چٹائی پر تنکا۔جو دل اُس سے محبت کرے تو اُس پر سیاہ نقطہ لگا دیاجاتا ہے اورجواُسے ناپسند کرے تو اُس پر سفید نقطہ لگا دیاجاتا ہے۔یہاں تک کہ دل دو طرح کے ہو جائیں گے۔ایک سفید سنگ مرمرکے جیسے اوردوسرے سیاہ تارکول جیسے ۔اوندھا کوزہ کہ نہ نیک کام کوپہچانے اور نہ برے کام کو ناپسند کرے۔بس اسے اپنی خواہشات سے مطلب ہو۔(مسلم)……اس وقت دنیا کا ہر آدمی اپنی خواہش کا غلام بنا ہوا ہے۔جو لوگ اللہ کے نیک بندے بننا چاہتے ہیں اُن کو خواہش کی پیروی سے سخت پرہیز کرنا اوراپنے گھر والوں کو بھی اس سے پرہیز کرانا چاہئے۔
ایمان نہیں ہوگا: اُن سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سناکہ امانت لوگوں کے دلوںپر نازل ہوتی ہے، پھر لوگ قرآن مجید سکھائے جاتے ہیں پھر سنت کا علم۔پھر نبی نے اُن کے اٹھنے کی خبر دیتے ہوئے کہا کہ آدمی سوئے گا تو امانت اُس کے دل سے کھینچ لی جائے گی…… پھر صبح کو لوگ خرید و فروخت کریں گے اور اُن میں امانت ادا کرنے والا کوئی بھی نہیں ہوگا۔کہا جائے گا کہ فلاں قبیلے میں امانت دار آدمی ہے۔ کہا جائے گا کہ فلاں آدمی کتنا عقل مند ،کتنا خوش مزاج اور کتنا ہوشیار ہے، لیکن اُس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں ہوگا۔(بخاری، مسلم)……قرآن میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان ، زمین اورپہاڑ کے سامنے اپنی امانت پیش کی مگرسبھوں نے اس کوقبول کرنے سے انکارکردیااور انسان نے اسے قبول کر لیا۔آدمی ظالم اورجاہل ہے۔آدمی امانت قبول کرنے کی ذمہ داری اُسی وقت نبھا سکتا ہے جب اُس کو قرآن اور سنت کا علم ہو۔ جو اس علم سے محروم ہے وہ ایمان سے محروم ہے۔
فرقہ بندی گمراہی ہے: اُن سے ہی روایت ہے کہ لوگ رسول اللہﷺ سے خیر کے بارے میں پوچھتے اور میں شر کے بارے میں پوچھتا اس خوف سے کہ کہیں وہ مجھ تک نہ پہنچ جائے۔میں نے نبیﷺسے عرض کیا کہ ہم لوگ دور جاہلیت میں شر میں تھے تو اللہ تعالیٰ خیر لے آیا کیا اس کے بعد بھی شر ہے ؟ نبیﷺنے فرمایا ہاں۔ میں نے پوچھا کیا شرکے بعدخیر ہے ؟ نبیﷺنے فرمایا ہاں، لیکن اس میں دھواں ہوگا۔میں نے پوچھا اس کا دھواں کیا ہے ؟ نبیﷺنے فرمایا:لوگ میرے طریقے کے سوا دوسرا طریقہ اور میری عادت کے سوا دوسری عادت اختیار کریں گے۔اُن کی بعض باتیں اچھی ہوںگی اور بعض باتیں بری ہوں گی۔میں نے پوچھا کیا خیرکے بعد شر ہے ؟ نبیﷺ نے فرمایا ہاں، جہنم کے دروازے پر بلانے والے ہوں گے، جو اُن کا کہا مانے گا اُسے آگ میں ڈا لا جائے گا۔ وہ ہماری ہی جیسی بولی بولیں گے۔ میں نے پوچھا کہ میں اگر اُن کو پاؤں تو کیا کروں ؟ فرمایا کہ مسلمانوں کی جماعت اور اُن کے امام سے وابستہ رہنا۔ میں نے پوچھااگر جماعت اور امام نہ ہو تب ؟ فرمایا اُن تمام فرقوں سے الگ رہنا، چاہے تم کو کسی پیڑ کی جڑ چبانی پڑے،یہاں تک کہ اسی حالت میں موت آ جائے۔(بخاری، مسلم)…جماعت سے مراد اسلام کی حکومت ہے اورامام سے مراد وقت کاخلیفہ ہے۔خلیفہ اسی وقت ہوگا جب خالص اسلامی اور شرعی حکومت قائم ہو گی۔ابھی مسلمان جماعت کی جگہ فرقہ بندی میں پڑ ے ہوئے ہیں۔نبی ﷺ اس فرقہ بندی سے الگ رہنے کی ہدایت دے رہے ہیں۔کاش سمجھ دار مسلمان نبیﷺ کی اس ہدایت کو یاد رکھیں اور ہر فرقے سے اپنا ناطہ توڑ کر سنت کی پیروی کریں۔
جسم انسان کا دل شیطان کا: مسلم کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ میرے بعد اما م ہو ں گے جو میرے راستے پر نہیں چلیں گے اور نہ میرا طریقہ اختیار کریں گے۔ اُن میں ایسے لوگ بھی ہوں گے جن کے انسانی جسم کے اندر اُن کے دل شیطان جیسے ہوں گے۔حذیفہؓ نے پوچھا میں جب ایسا وقت پاؤں تو کیا کروں ؟ امیر کی بات سننا اور ماننا۔ وہ تمہیں مارے اور تمہارا ما ل چھین لے تب بھی اُس کی بات سننااور اطاعت کرنا۔……یہاں امام اور امیر دونوں الفاظ آئے ہیں۔ایسا محسوس ہوتاہے کہ سیاسی اقتدار والا امام کہاجارہا ہے اورکوئی صاحب خیر جس نے دینی بنیادوں پر ایک گروہ آٹھایا ہے اُس کے سربراہ کو امیر کہاجارہا ہے۔یعنی اقتدار کی جگہ شریعت کی پیروی کرانے والے کی بات مانی جائے۔
آج ہر آدمی کو اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ اس کا جسم تو انسان کا ہے لیکن کیا دل بھی مومن ہے یا شیطان ہے۔
دین کے بدلے دنیا کا مال: حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:اندھیری رات جیسے فتنوں سے پہلے اعمال جلدی کر لوجن میں آدمی صبح کو مومن اور شام کو کافر ہوگا۔شام ایمان کی حالت میں کرے گا اور صبح کو کافر ہو جائے گا۔اپنے دین کو لوگ دنیاوی مال کے بدلے بیچ دیں گے (مسلم)……اس حدیث میں نیک عمل کرنے کی اہمیت بتائی جا رہی ہے۔یعنی اس سے پہلے کہ ایمان آفت میں پڑے اور دنیا دین سے زیادہ پیاری ہو جائے آخرت میں کام آنے والی زیادہ سے زیادہ نیکیاں کر لو۔
قتل بڑھ جائے گا: حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:زمانہ قریب ہو جائے گا۔ علم اٹھا لیا جائے گا۔فتنے ظاہر ہوں گے۔ بخل (دلوں میں )ڈال دیا جائے گا۔اور ہرج (قتل) کی کثرت ہو جائے گی۔(بخاری،مسلم)……وقت کا بے برکت ہوجانا،علم سے لوگوں کا محروم ہو جانا ، ایمان کو خطرے میں ڈالنے والے فتنوںکا ظاہر ہونا ، مالدار ہونے کے باوجود بخیل ہو جانا اور دنیا داری بڑھ جانے کے سبب قتل و غارت گری کا حد سے زیادہ ہونے لگنا قیامت کی نشانیوں میں سے بتایاجارہاہے۔آج یہ ساری چیزیں دنیا کے سامنے ظاہر ہو چکی ہیں۔
قاتل مقتول دونوں جہنمی: اُن ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایاقسم ہے اُس ذات کی قسم جس کے قبضے میںمیری جان ہے قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ لوگوں پر ایسے دن نہ آ جائیں کہ قاتل نہیں جانے گا کہ اُس نے کیوں قتل کیا اور مقتول کو نہیں معلوم ہوگا کہ اُسے کیوں قتل کیا گیا۔قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہوں گے۔(مسلم)……کرایے کے قاتل نہیں جانتے کہ وہ مارنے والے کو کیوں ما ر رہے ہیں اور مرنے والا بھی نہیں جانتا کہ اُس آدمی نے ا س کو کیوں مارا ؟ آج کی دنیا میں عربوں کی طرح دو فریق ایک دوسرے کو نہیں ماررہے ہیں بلکہ کرایے کے قاتل قتل کر رہے ہیں۔اسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ مارنے والا نہیں جانتا کہ اُس نے کسی کو کیوں مارا اور مرنے والا نہیں جانتا کہ مارنے والے سے تو اُس کا کوئی معاملہ تھا ہی نہیں، پھر اُس نے اُس کی جان کیوں لی۔
تلوار رکھی نہیں جائے گی: حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:مجھے اپنی امت کے متعلق گمراہ کرنے والے سرداروں کا ڈر ہے۔جب میری امت میں تلوار چل پڑی تو قیامت تک اٹھا کر رکھی نہیں جائے گی۔(ابوداؤد، ترمذی)……مسلمانوں میں گروہ بندی کی وجہ سے ایسی صورت حال پیدا ہوگی۔ہر گروہ کا سردار اپنے گروہ کے اندر دوسرے گروہ کے لوگوں کے خلاف نفرت بھڑکائے گا اور ان دونوں میں خون خرابہ ہوتا رہے گا۔
خلافت تیس سال: حضرت سفینہ ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺکوفرماتے سنا: خلافت تیس سال رہے گی پھر بادشاہی ہوگی۔انہوںنے کہا جوڑو:حضر ت صدیقؓدو سال۔حضرت عمرؓدس سال حضرت عثمانؓ بارہ سال۔حضرت علیؓ چھ سال۔(احمد، ترمذی،ابوداؤد)
عورتیں بڑھ جائیں گی: حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ میںنے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے سنا: قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ علم اٹھا لیا جائے گا،جہالت بڑھ جائے گی،زنا کی کثرت ہوگی،شراب بہت پی جائے گی،مرد گھٹ جائیں گے اور عورتیں بڑھ جائیں گی،یہاں تک کہ پچاس عورتوں کی نگرانی کرنے والا ایک مرد ہوگا۔ (بخاری، مسلم)……شاید ابھی وہ وقت نہیں آیا ہے جس کاذکر اس حدیث میں کیا گیا ہے۔
جھوٹ بولنے والے: حضرت جابر بن سمرہ ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺکوفرماتے سنا قیامت سے پہلے جھوٹ بولنے والے بہت ہوں گے، اُن سے دور ہی رہنا۔ (مسلم ) ……نبیﷺ کی یہ پیشین گوئی پوری ہو گئی مسلمان کہتا ہے کہ آج جھوٹ بولے بغیر کام چل ہی نہیں سکتا ہے۔
دنیا نااہل کے حوالے: حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نے حاضر ہو کر پوچھا، قیامت کب ہوگی ؟ رسول اللہﷺنے فرمایا:جب امانت ضائع کر دی جائے تو قیامت کا انتظار کرنا۔پوچھا گیا امانت کیسے ضائع کر دی جائے گی ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:دنیا کا کاروبار نااہل لوگوں کے حولے کر دیا جائے گا تو قیامت کا انتظار کرنا۔(بخاری)……اس وقت دنیا کا سار ا انتظام نااہل لوگوں کے ہاتھوں میںہے اور ہر ملک کی عوام اپنے سیاسی آقاؤں کے ہاتھوںتباہ وبرباد کی جا رہی ہے۔
مال کی کثرت: اُن سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ مال بڑھ کر عام نہ ہو جائے،ایک آدمی مال(زکوٰۃ) لے کر نکلے گا مگر کوئی اُسے قبول کرنے والا نہیں ہوگا۔یہاں تک کہ عرب کی سرزمین بھی چراگاہیں اور نہروں میں تبدیل ہو جائے گی۔ (مسلم)……یہ وقت خلیفہ عثمان غنیؓ کے دور میں آچکا ہے لیکن ایسا دور پھر آئے گا۔
دریا سے سونا: حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:قریب ہے کہ دریائے فرات سونے کی جگہ سے کھل جائے گا، جو موجود ہو تو اس میں سے کچھ بھی نہ لے۔(بخاری، مسلم)
سونے کا پہاڑ: اُ ن سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:دریائے فرات سونے کے پہاڑ کی جگہ سے کھل جائے گا۔لوگ اُس پر آپس میں لڑیں گے اور ہر سو میں سے نناوے قتل کر دیے جائیں گے۔ہرآدمی یہ کہے گا کہ کاش وہ بچنے والا میں نکلوں۔ (مسلم)……کہتے ہیں کہ یہ پہاڑ نکل چکا ہے لیکن اسے چھپا دیا گیا ،کیونکہ اس کی وجہ سے دنیا کا معاشی نظام ہی منتشر ہو جائے گا، جو اس وقت یہودیوںکے ہاتھوں میں ہے۔آج ملکوں کے درمیان زمین میں موجود قدرتی دولت پر قبضے کی وجہ سے ہی جنگیں ہو رہی ہیں۔
حجاز کی آگ: اُ ن سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ سرزمین حجاز سے ایک آگ نکلے گی جس سے بصرہ کے اونٹوںکی گردنیں بھی چمک اٹھیں گی۔ (بخاری، مسلم)حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ میںنے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:قیامت کی نشانیوں میں سے پہلی نشانی وہ آگ ہے جو لوگوں کو مشر ق سے مغرب کی طرف لے جائے گی۔(بخاری)حجاز یعنی عرب سے آگ نکلے گی۔
قبر کی چاہت: اُ ن سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے ۔دنیا ختم نہیں ہوگی یہاں تک کہ آدمی قبر کے پاس سے گزرے گا تو اُس پر لیٹ جائے گا اور کہے گا کاش میں اس قبر والے کی جگہ پر ہوتا۔وہ ایسا دین کی وجہ سے نہیں بلکہ دنیا کی ،مصیبت بھری زندگی کی وجہ سے کہے گا۔ (مسلم)اب آہستہ آہستہ دنیا اُس طرف بڑھ رہی ہے جب بے انتہا دولت کمالینے کے باوجود انسان کی زندگی عذاب بن کر رہ گئی ہے۔صارمؔ کہتے ہیں:
قیامت آنے والی ہے نہیں کچھ ہوش لوگوں کو
یہ مال و دولت دنیا ، یہ عیش و عشرت بیجا
ہوا ہو جائیں گی پانی میں بنتے بلبلے جیسے
جہنم میں ہمیشہ ایسے نادانوں کو جلنا ہے