اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے اپنے رسولوں کو اس دنیا میں بھیجا جو اپنے اپنے دور کے اعتبارسے خدائی احکام لے کر آئے ،پھر سب کے آخر میں اللہ نے آخری نبی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو ایک جامع اور مکمل شریعت دے کر بھیجا اورآپ کی ذات اور سیرت کو روشن بنایا،تاکہ آپ ہر طبقہ اور سماج کے انسانوں کی ہدایت کے لیے نمونہ بن سکیں؛ اسی لیے نہ صرف یہ کہ آپ کی تئیس سالہ نبوی زندگی کے خلوت وجلوت کے حالات اورمعاشرت وسیاست اور سفروحضر کے واقعات محفوظ ہیں؛بلکہ نبوت سے پہلے کی زندگی کے حالات بھی روشن دن کی طرح ہیں، جس کا کوئی پہلو نگاہوں سے اوجھل نہیں ہے۔

قومی نائب صدر،آل انڈیا ملی کونسل
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مشہور قول کے مطابق12 ربیع الاول عام الفیل /8جون570ء یا 571ء میں بعثت سے چالیس سال پہلے مکہ میں پیدا ہوئے۔حجۃ الوداع کے فوراً بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کچھ بیمار ہوئے، پھر ٹھیک ہو گئے؛ مگر کچھ عرصہ بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پھر بیمار پڑ گئے اورکئی روز تک ان کے سر میں درد ہوتا رہا۔ بالاخر روایات کے مطابق 12ربیع الاول 11ھ؍مئی، یا جون 632ء میں انتقال کر گئے۔
اعلی اخلاق:
اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوروشن چراغ بناکراعلیٰ اخلاق عطاکیاتھا اورآپ سارے عالم کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گیے ، اللہ جل شانہ نے فرمایاہے:
(ترجمہ)’’اورہم نے آپ کو سارے جہان والوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا ‘‘۔(سورۃ الانبیاء:۱۰۷)
اللہ رب العزت نے دوسری جگہ فرمایاہے:(ترجمہ)’’بلاشبہ اے نبی آپ بلند اخلاق پرفائز ہوئے‘‘۔(سورۃ النون:۴)
یہی وجہ ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تمام انسانوں کے لیے بہترین اسوہ اور نمونہ ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:(ترجمہ)’’بے شک تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسول میں ایک بہترین نمونہ ہے‘‘۔(سورۃ الأحزاب:۲۰)
حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام اخلاق اعلیٰ اورعظیم ہیں اور انسانی فطرت کے مطابق ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اخلاقیات کی تکمیل کو رضائے ا لٰہی اورآخرت کی کامیابی کا ذریعہ بتاتے ہوئے اپنے بارے میں ارشادفرمایاہے:’’میںاخلاق حسنہ کی تکمیل کے لیے بھیجا گیاہوں‘‘۔(مسند البزار،مسند عبداللّٰہ بن عباس،حدیث نمبر:۸۹۴۹)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایاہے:’’تم میں سب سے اچھے وہ ہیں جن کے اخلاق اچھے ہوں‘‘۔(صحیح البخاری،باب صفۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم،حدیث نمبر:۳۵۵۹)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات کیاہیں؟اورآپ کی زندگی ک طرح گزرتی تھی،اس بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ خوش گوار، خوش مزاج رہتے تھے، اخلاق کریمانہ کے حامل تھے،بہت آسانی سے دوسروں کی طرف توجہ فرماتے تھے، سخت دل اور ترش رو نہ تھے،چیختے چلاتے نہ تھے، برے اور بے حیانہ تھے، کسی کی عیب جوئی نہ کرتے تھے اور نہ بخیل وکنجوس تھے،جس چیز کو ناپسند کرتے تھے، اس سے پرہیزکرتے تھے ،مگر پیش کش کرنے والوں کو اپنے کرم سے مایوس نہیں کرتے تھے اور نہ اس کا و عدہ کرتے تھے۔آپ نے اپنی ذات کوتین چیزوں سے بچالیاتھا لڑائی جھگڑا کرنے سے، کبروغرور سے اور فضول کاموں سے اور لوگوں کو بھی تین چیزوں سے محفوظ کردیاتھا ،کسی کی مذمت اور برائی نہیں کرتے تھے، کسی کی نکتہ چینی نہیں کرتے تھے اور نہ کسی کی پوشیدہ باتوں کے پیچھے پڑتے تھے، وہی بات کرتے تھے، جس میں نیکی اور ثواب کی امید ہوتی تھی اور جب گفتگو فرماتے تھے توآپ کے ہم نشین صحابہ اس طرح خاموشی اورتوجہ سے بات سنتے تھے، جیسے ان کے سروںپرپرندے بیٹھے ہوں(کہ ذراسی حرکت نہیں کرتے تھے)، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوجاتے تھے توآپ کے صحابہ باتیں کرتے تھے؛مگر بحث وتکرار نہیں کرتے تھے ،یہاں تک کہ وہ اپنی بات مکمل کرلیں۔صحابہ کرام جن باتوںپرہنستے،آپ بھی مسکرادیتے، جس بات پر صحابہ تعجب کرتے، آپ بھی حیرت کااظہار فرماتے، اگر کوئی اجنبی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میںآکر نادانی اور سختی سے بات کرتا، تو اس کی زبان درازی پرصبرکرتے، جب کہ صحابہ اس نادان شخص کو سزا دینے پرآمادہ ہوجاتے، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ سے فرماتے، جب تم کسی ضرورت مند کو دیکھو کہ وہ تم سے سوال کررہا ہے تو تم اس کی ضرورت پوری کردو۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سامنے اپنی تعریف کسی سے سننا پسند نہیں کرتے تھے، مگر یہ کہ کسی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احسان کیا اور وہ شکریہ ادا کرنے آیا ۔آپ کسی کی بات درمیان میں کاٹتے نہیں تھے ،مگر یہ کہ وہ حد سے تجاوز کرنے لگے، اس صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم یاتو اسے روک دیتے،یا کھڑے ہوجاتے۔(شمائل الترمذی ،باب ماجاء فی خلق رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم،حدیث نمبر:۳۲۹)
اکرام انسانیت:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میںعمرمیں اپنے بڑوں کے ساتھ اخلاق کانہایت شریفانہ کردار ملتاہے، آپ اپنے مرتبہ کی بڑائی کی وجہ سے کبھی آپ رشتہ یا عمر میںاپنے بڑوں کی عزت سے نہ رکے،آپ کے چچا ابو طالب نے باپ کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش کی، آپ ان کی عزت کرتے،تجارت میں ہاتھ بٹاتے، مکہ میں ابوطالب کی دوکان تھی،اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھاکرتے تھے۔ ایک دفعہ چچا بیمار ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی مزاج پرسی کے لیے تشریف لے گئے، چچا نے بھتیجے سے کہا کہ بیٹا کیا تم خالی مزاج پرسی کے لیے آئے ہو؟ جس خدا نے تمہیں رسول بنایا ہے اس خدا سے تم میری تندرستی کے لیے دعا کیوں نہیں کرتے؟ بھتیجے نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھادیا، رحمت الٰہی جوش میںآئی ،دعاقبول ہوئی، ابو طالب اٹھ کر بیٹھ گئے اور بو لے محمد!خداتمہارا کہنا مانتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ کا موقع پاکر کہاچچاجان اگرآپ بھی میرا کہنا مان لیں تو اللہ آپ کا بھی کہنامانے گا۔(سیرت النبی جلد اول)
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چھوٹوں کے ساتھ محبت اور پیار کا بہترین برتاؤ کرتے تھے اور جوش محبت میں کبھی چھوٹوں کی تربیت سے غفلت نہیں فرماتے تھے ،محبت کے وقت محبت، نصیحت کے وقت نصیحت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاقی اصول تھا۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ابراہیم کا انتقال ہوگیاتو بیٹے کی جدائی کے غم میں عام انسانوں کی طرح رونے لگے اور اظہار غم کے طورپر فرمایاکہ ’’خدا کی قسم اے ابرہیم میں تیری جدائی سے مغموم ہوں‘‘۔(صحیح البخاری،قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم:إنا بفراقک یا إبراھیم لمحزونون،حدیث نمبر:۱۳۰۳)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نواسہ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کا بوسہ لیا اس وقت مجلس میں اقرع بن حابس تمیمی رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے۔ اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرے دس لڑکے ہیں ،میں نے ان میں سے کسی کا بوسہ نہیں لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی جانب دیکھ کر فرمایا : ’’من لا یرحم لا یرحم‘‘۔(صحیح البخاری،باب رحمۃ الولد وتقبیلہ ومعانقنہ،حدیث نمبر:۵۹۹۷)(جور حم نہیں کرتا، اس پررحم نہیں کیاجاتا۔)
محبت وشفقت کے باوجود دین واخلاق کے معاملے میں آپ انصاف کرتے، قبیلہ مخزوم کی ایک خاتون سے چوری کا جرم ثابت ہوگیا ان کے رشتہ داروں نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو سفارشی بناکر بھیجا، حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’تم سے پہلی امت اس لیے ہلاک ہوئی کہ وہ کمزوروں پرحد جاری کرتے تھے اور شریف ومعزز گھرانوں کو چھوڑ دیتے تھے ،خدا کی قسم! اگر فاطمہؓ نے یہ کام کیاہوتا تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹتا‘‘۔(صحیح البخاری،باب إقامۃ الحدود علی الشریف والوضیع،حدیث نمبر:۶۷۸۷)
گھریلوزندگی:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی معاشرتی اورگھریلو زندگی بھی اعلیٰ نمونہ تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اوقات کوتین حصوںمیںتقسیم کررکھاتھا،ایک اللہ کی عبادت کے لیے،دوسرے لوگوںسے ملاقات، دین کی باتیںسکھانے اورتیسراگھروالوںکے لیے ۔اس لیے جب آپ گھرمیںآتے تو اپنی ازواج کے ساتھ الفت ومحبت اور خوش اخلاقی سے پیش آتے تھے، ان کے ساتھ مزاح بھی فرماتے اور ان کی حقوق کی ادائیگی اور عدل وانصاف میں بے حد احتیاط رکھتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تم میں وہ شخص اچھا ہے جواپنے اہل وعیال کے لیے بہتر ہو اور میں تم میں سب سے بہتر ہوں اپنے اہل وعیال کے لیے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اقارب اور رشتہ داروں کا بھی بے حد خیال رکھتے تھے، سب سے پہلے دین کی دعوت بھی ان کو دیتے اور راہ حق کی طرف ان کوبلاتے اللہ نے آپ کو حکم دیاتھا:(ترجمہ)’’اے پیغمبر!تیرے پروردگار کی طرف سے جو کچھ تیرے پاس آیا ہے، اس کو پہنچا دے اگر تو نے ایسا نہیں کیا تواپنے رب کا پیغام نہیں پہنچایا اور اللہ تم کو لوگوں سے بچالے گا‘‘۔(سورۃ المائدۃ:۶۷)
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کواللہ کی طرف سے یہ حکم آیاتھا:(ترجمہ)’’اپنے نزدیک کے خاندان والوں کو ڈرائیے‘‘۔(سورۃ الشعراء:۲۱۴)
دوسری جگہ آیاہے:(ترجمہ)’’اپنے اہل کونماز کاحکم دیجئے اور نماز پرقائم رہئے‘‘۔(سورۃ طٰہٰ:۱۳۲)
دعوت وتبلیغ:
اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت وتبلیغ کاکام اپنے خاندان اور گھروالوں سے شروع کیا اس کے بعد آپ نے دیگر لوگوں کو اللہ کی وحدانیت کی طرف بلایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حج کے موسم میں عرب کے مختلف قبیلوں کے پاس جا کر حق کا پیغام پہنچاتے اور دین کی دعوت پیش کرتے، گرچہ ابتدا میں قریش اوردیگر لوگوں نے دعوت کا انکار کیا، مگر آہستہ آہستہ حق کا پیغام پہنچنے لگا ،یہاں تک کہ اللہ کے حکم سے آپ ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لے گئے اور وہاں دس سال دعوت وتبلیغ کا کام کیا ،ابتداء میں مدینہ میں بھی آپ کو قریش سے مزاحمت کاسامنا کرناپڑا ؛لیکن اس کے باجود اخیر میں فضا ہموار ہوئی اور قریش کا رجحان اسلام کی طرف بڑھتاگیا اوراخیر عمر میں پورے عرب میں اسلام پھیل گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت تمام انسانوںسے محبت،ان کی خدمت اورحاجت روائی کی ہے،یہاںتک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عام لوگوںکے راستہ کوتنگ رکھنے اوراس کوگندہ کرنے سے بھی منع فرماتے تھے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادہے:’’مسلمانوںکے راستہ سے تکلیف دہ چیز کودورکردو‘‘۔(صحیح مسلم،فصل إزالۃ الأذی عن الطریق،حدیث نمبر:۲۶۱۸)
آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے سماج کے کمزور افراد، بچے، عورتیں، مزدور، غلام، ضعیف، اپاہچ، مسکین،یتیم،بیمار اور پریشان حال افرادکے ساتھ حسن سلوک کی تاکیدکی اورعملی طورپران کے ساتھ بہتر برتاؤکرکے تمام انسانوںکے لیے نمونہ بنے۔
اللہ کی یاد:
خدمت خلق کے ساتھ آپ ہر وقت اللہ کویادرکھتے،نمازوں کے بارے میںآپ کامعمول یہ تھاکہ آپ فرائض ونوافل آٹھ وقتوں میںپڑھتے،سورج نکلنے سے پہلے فجر اورسورج نکلنے کے بعداشراق، اس کے کچھ دیربعد چاشت،پھرسورج ڈھلنے کے بعد ظہر، عصر، مغرب، عشا اور آخررات میںتہجدکی نمازپڑھتے اور رات رات بھرکھڑے رہ جاتے،کھڑے کھڑے پاؤںمبارک میںورم آجاتا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاعرض کرتی ہیںکہ اللہ تعالی نے آپ کوہرطرح معاف کردیاہے پھرآپ اس قدر تکلیف کیوںاٹھاتے،آپ فرماتے:اے عائشہ !کیا میںخداکاشکرگزاربندہ نہ بنوں۔
یہی حال روزہ کاتھاعام لوگوںپررمضان کے مہینہ کاروزہ فرض ہے؛ مگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کاکوئی ہفتہ اورمہینہ روزہ سے خالی نہ جاتا،عام طورپرہرماہ میںتین روزے رکھتے۔اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم صدقہ وخیرات کااہتمام کرتے اورگھر میںجوکچھ ہوتامانگنے والے کو دیتے تھے۔اللہ رب العزت ہم سب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کی اتباع کی توفیق دے اورآپ کے بتائے ہوئے راستہ پرقائم رکھے۔ (آمین)