پٹنہ :”بزم دوستاں” ادبی دنیا میں لگاتار تاریخ رقم کر رہی ہے۔اس بزم نےگزشتہ اتوار کو خانقاہ دیوان شاہ ارزاں کے قدیم ہال میں اس قدیم خانقاہ کے سجادہ نشیں سید شاہ انظار حسین کی سرپرستی اور خانقاہ منعمیہ میتن گھاٹ پٹنہ سیٹی کے سجادہ نشیں ڈاکٹر سید شاہ شمیم الدین احمد منعمی ،پروفیسر علیم اللہ حالی، پروفیسر اعجاز علی ارشد، خانقاہ معظم بہارشریف کے سجادہ نشیں سید شاہ سیف الدین فردوسی اور کئی دوسرے اہل علم وادب کی موجودگی میں ایک طرحی مشاعرہ منعقد کیا۔ اس کی صدارت پروفیسر علیم اللہ حالی نے کی اورنظامت کا فریضہ اردو میڈیا فورم بہار کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر ریحان غنی نے انجام دیا۔

مشاعرہ کا مصرع طرح تھا "ہر کوئی تعریف کرتا ہے سبک رفتار کی”۔ اس طرحی مشاعرے میں تقریباً تین درجن شاعروں نے اپنے کلام سے سامعین کو محفوظ کیا۔ ان شعرائے کرام کےاسمائے گرامی اور ان کے کلام ذیل میں درج ہیں۔
ناشاد اورنگ آبادی
چاہے کچھ کہے مصرعہ طرح ہے خو ب یہ
"ہر کوئی تعریف کرتا ہے سبک رفتار کی "
علیم اللہ حالی
رات بھر جلتی رہی کمرے میں شمع انتظار
رات بھر رقصاں رہی تصویر روئے یار کی
شمیم منعمی
آنکھ ہوتی توسماں دکھلائی دے جاتا ابھی
کیسے کرتے ہیں ملائک بارش انوار کی
اعجاز علی ارشد
نعت کہنی چاہتا ہوں احمد مختار کی
آزمائش ہے یہ میری قوت گفتار کی
مرغوب اثر فاطمی
ہو گئیں معدوم گر دنیا سے ناہموریَاں
ختم ہو جائے گی وقعت سر پھرے فن کا ر کی
معین کوثر
آئیے مضبوط ان کے ہاتھ کو ہم بھی کریں
کر رہے ہیں جومدد مجبور کی لاچار کی
ظفر صدیقی
ہم نے لذت جیت لی اس نے تہمت ہار لی
وقت نے تاریخ لکھ دی کابل وقندھار کی.
سہیل فاروقی
دیکھتے ہو دھار کیا ٹوٹی ہوئی تلوار کی
جب غلامی پہ مقرر ہو گئے دربار کی
پیکر رضوی
ا ب تو رضوی درد ہی اس درد کا عنوان ہے
سب کےچہرے پر کہانی ہے لکھی آزار کی
نیاز نذر فاطمی
فکر فردا، ذکر رفتہ یہ شکایت وہ گلہ
وصل کی شب اور باتیں اس قدر بیکار کی
فرد الحسن فرد
درد وغم زینت نہیں بنتا کبھی بازار کی
مشتہر ہم کیوں کریں حالت دل بیمار کی
احمد شاذ قادری
ہم بدل سکتے نہیں اپنا فقیرانہ مزاج
ہم سے ممکن ہی نہیں تعظیم ہو دربار کی
افتخار عاکف
یہ ہے معیار بلندی جذبہ ایثار کی
حق کی خاطر رکھ دیا سر نوک پہ تلوار کی
وارث اسلام پوری
جان یہ جائے تو جائے اس کا کوئی غم نہیں
کم سے کم رکھئے بچا کے آبرو دستار کی
شکیل شہسرامی
صدر دروازہ تو اپنا ہاتھ میں ہے غیر کے
ہم حفاظت کر رہے ہیں گنبد و مینار کی
اصغر حسین کامل
کون ہے کس نے پکارا ایک مدت پہ مجھے
دور سے آواز آئی ہےکسی غمخوار کی
قنبر علی
بیچ بستی میں میرا پختہ مکاں ہےمجھ کو کیا
سازشیں ہوتی ر ہیں گرلاکھ بھی اغیار کی
طلعت پروین
صنف نازک ہوں مگر جب وقت آتا ہے کٹھن
اس گھڑی میں بات کر تی ہوں فقط تلوار کی
معین گریڈ یہوی
کیجئے تعظیم ساری زندگی غمخوار کی
دین احمد مومنوں اک راہ ہے ایثار کی
ضیاء الرحمن ضیاء
دل میں اپنے پال رکھی ہیں ہزاروں خواہشیں
اس طرح خود ہم نے اپنی زندگی دشوار کی
نصر عالم نصر
سرخیاں اچھی نہیں ہیں آج کل اخبار کی
رہزنی اغوا گری رونق بنی بازار کی
جمال کاکوی
دیرپا ہےساتھ یوں اپنا جلوا ہر کام پر
چاہ منزل کی نہیں حاجت درو دیوار کی
بے نام گیلانی
تیری بے خبری کا یہ انجام ہےاور کچھ نہیں
لٹ چکی ہے آبرو ئے باغباں گلذار کی
صلاح الدین افضل
اب نہیں ہے تاب ہجراں آئیے اجایئے
ہے نہایت غیر حالت آپ کےبیمار کی
تحسین روزی
یہ بھی سنت ہےجہاں والو میرے سرکار کی
کیجئے جا کر عبادت ناتواں بیمار کی
معصومہ خاتون
قدر کرتی ہےیہ دنیا تو کرے زردار کی
ہے ہمارے دل میں عزت صاحب کردار کی
کلیم اللہ کلیم دوست پوری
ہر کوئی یہ چاہتا ہےاب کہ بازی جیت لوں
شرط ہے لیکن کرے نہ فکر وہ جیت وہارکی
نعیم صبا
ایسی بگڑی تو نہ تھی حالت کبھی س. سنسار کی
مشکلوں میں کٹ رہی ہے زندگی نادار کی
شفیع بازید پوری
ختم ہو تی ہی نہیں خواہش کبھی دیدار کی
ہر کوئی تعریف کرتا ہے سبک رفتار کی
شمیم عظیم آبادی
میں نے جب خون جگر سے اک غزل تیار کی
خود بخود بننے لگی تصویر حسن یار کی
میر سجاد
جو میسر ہو سکا سب کو نوازا عمر بھر
لب پہ گنجائش نہیں رکھی کبھی انکار کی
مصلح الدین کاظم
ہو گئے اہل کرم بھی سازشوں کے جب شکار
بات کیا تم پوچھتے ہو صاحب دستار کی
حیدر امام حیدر
اس کے دا من پر کبھی بھی داع لگ سکتا نہیں
جو حفاظت کر رہا ہے ہر جگہ کردار کی
مظہر زاہدی
میں نے َاپنے چشم تر کو ہی اپنا وسیلہ کرلیا
ان کی محفل میں نہیں حاجت لب گفتار کی
راشد اعظم
منتظر میں آج بھی ہوں ترا ائے جان غزل
امید تجھ سے ہے بہت اس دل نا چار کی
فاطمہ جبیں
کاش مل جاتی غلامی ان کے جو دربار کی
چھوڑ کر چوکھٹ نہ ہٹتی میں کبھی سرکار کی
نصر بلخی
لفظ ہاں میں تھی جو صورت ہے وہی انکار کی
کشمکشِ میں جاں پڑی ہے اب ترے بیمار کی
پرو گرام کے آخر میں بزم دوست کے صدر معین کوثر نے "ایک اور کاوش” کی اشاعت اورتقریب کے انعقاد میں مالی معاونت کے لئے خانقاہ ارزاں کے سجادہ نشیں سید شاہ انظار حسین کا خاص طور پر شکریہ ادا کیا. پروگ کو کامیاب بنانے میں آفتاب انیس، جرار حسین، شہزاد، محمد شیرو اور محمد ارشاد آخر تک سرگرم رہے۔