ملک میں موجودکچھ لوگ ملک کو ایک خاص عقیدے اور مذہبی تصورات کے سانچے میں ڈھالنے میں سرگرم عمل ہیں۔اگر چہ ملک کا دستور ملک میں آباد بہت بڑی اکثریت اور دوسری اقلیتیں اس کے خلاف ہیں ،پھر بھی اُن کی ضد ہے کہ وہ ایسا کرکے رہیں گے۔قدرت نے اس کام کا سنہرا موقع بھی اُنہیں فراہم کر دیا ہے۔حکومت اُن کی ہے۔حکومت کے سارے ادارے اُن کے اشاروں پر کام کر رہے ہیں۔بیشمار لوگوں کی مخالفت ، احتجاج،دلیلیں مطالبات اور عدالت کی کارروائیاں اُن کے عزم و ارادے کو کمزور نہیں کر پا رہی ہیں۔

رابطہ:8298104514
مسلمانوں کے لئے اس وقت حالات مکمل طور پرناسازگار ہوتے جا رہے ہیں۔مسلمان چاہتے ہیں کہ اُن کے حالات سدھریں ،مگر اس کے لئے وہ کوئی تدبیر نہیں کر رہے ہیں ۔ صرف فریاد کر رہے ہیں۔ دنیا میں فریاد کرنے سے کام نہیں بنتا ہے۔مسلمانوں کی بدنصیبی یہ ہے کہ وہ خود اپنے مسلم سماج کے مسائل جو پورے طور پر اُن کے اپنے اختیار میں ہیں، حل نہیں کر پا رہے ہیں۔مسلمانوں کے ماتحت چلنے والا کسی بھی طرح کا ادارہ چاہے وہ تعلیم سے متعلق ہو یا مذیبی امور سے،سماجی مسائل سے اُس کا رشتہ ہو یا معاشیات سے یا سیاسیات سے، ایسا نہیں ہے جس کے کام اور انتظام کی تعریف کی جائے۔ ہر جگہ بدنظمی، بے ترتیبی،بدنیتی، بے ایمانی، ظلم و زیادتی، ناانصافی اورآپس میں کھینچا تانی کی تصویریں صاف دکھائی دے رہی ہیں۔
مسلمانوں کی بنیادی، بھیانک اور سنگین غلطی بلکہ گناہ یہ ہے کہ اُنہوں نے اپنے رسول ﷺ کو چھوڑ کرمغرب والوںاور اسلام دشمنوں کو اپنا آئیڈیل بنا لیا ہے اور اُن کے جیسا بننا چاہتے ہیں۔مسلمانوں کا اعلیٰ تعلیم یافتہ اور خوش حال طبقہ یہ بات کہتے نہیں تھکتا کہ مسلمانوں کو یورپ اور امریکہ والوں سے سبق سیکھنا چاہئے کہ وہ انگریزی جاننے اور سائنس پڑھنے کی وجہ سے ترقی کی بلندیوں پر جا پہنچے ہیں۔جس طبقے کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمتوں سے نوازا ہے وہ بد نصیب اللہ اور رسول کے احکام کی پیروی کی جگہ ملت کومغرب والوں کی نقالی کی تاکید اور تلقین کر رہا ہے۔
مغربی اور مشرقی تمام قوموں کی خصوصیت کو اللہ تعالیٰ اس آیت میں بیان کر رہا ہے:’’تم لوگوں کوزیادہ سے زیادہ اور ایک دوسرے سے بڑھ کر دنیا حاصل کرنے کی دھن نے غفلت میں ڈال رکھا ہے،یہاں تک کہ اسی فکر میں تم اپنی قبروں تک جا پہنچتے ہو۔(تکاثر:۱/۲)غیر مسلم قوموں کی خاصیت یہ ہے کہ دنیا داری میں وہ سب سے آگے رہنا چاہتی ہیں،اوراسی دھن میں اُن کی پوری زندگی گزر جاتی ہے۔
ان کے مقابلے میں اہل اسلام کی زندگی کا مقصد کیا ہوناچاہیے وہ اس آیت میں پڑھئے:’’اے پیغمبر ان سے کہہ دو کہ پاک اور ناپاک بہر حال یکساں نہیں ہیں،خواہ ناپاک کی زیادتی تمہیں کتنا ہی فریفتہ کرنے والی ہو۔ پس اے لوگو جو عقل رکھتے ہو ! اللہ کی نافرمانی سے بچتے رہو امید ہے کہ تمہیں فلاح نصیب ہوگی۔‘‘(المائدہ:۱۰۰) کہا جارہا ہے کہ اہل ایمان ہونے کی شرط یہ ہے کہ صرف پاک اور حلال چیزیں کھاؤ اور استعمال کرو اور ناپاک اور حرام سے سخت پرہیز کرو، چاہے وہ تمہیں کتنا ہی اچھا کیوں نہ لگے کیونکہ ایسانہ کرنا اللہ کی نافرمانی ہوگی۔اہل اسلام جب اس نافرمانی سے بچیں گے تو اُن کو فلاح نصیب ہوگی یعنی دونوں جہان کی کامیابی ملے گی۔اس بات کو اس آیت میں مزید واضح کیا گیا:’’دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو تمہیں غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔‘‘(آل عمران :۱۳۹) موجودہ مسلمان قرآن کی ان باتوں کاانکار کرنے پر آمادہ ہیں، وہ کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں؟
نصیحت کے لئے اس بات کو ایسے بھی سمجھایا گیا:’’رہے وہ لوگ جنہوں نے کفر کا رویہ اختیار کیا،تو اللہ کے مقابلے میں اُن کو نہ اُن کا مال کچھ کام دے گا نہ اولاد،وہ تو آگ میں جانے والے لوگ ہیں اور آگ ہی میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘(آل عمران :۱۱۶)یعنی جنہیں تم کامیاب اور خوش حال سمجھ رہے ہو وہ تو ایسے ناکام ہیں کہ نہ اُن کا مال اُن کے کام آئے گا نہ اُن کی اولاد اُن کی مدد کرے گی۔ وہ تو جہنم میں جائیںگے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ سوچو یہ کامیابی ہے یا ناکامی ؟ اتنے ہی پر بس نہیں کیا گیا بلکہ اسی بات کو ایک دوسرے طریقے سے سمجھایا گیا:’’اور جو کچھ اللہ نے تم میں سے کسی کو دوسرے کے مقابلے میں زیادہ دیا ہے اُس کی تمنا نہ کرو، جو کچھ مردوں نے کمایا ہے اُس کے مطابق اُن کا حصہ ہے، اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے اُس کے مطابق اُن کا حصہ۔ہاں اللہ سے اُس کے فضل کی دعا مانگتے رہو،یقینا اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔‘‘( النسائ:۳۲)
دنیامیںکسی کو زیادہ اور کسی کو کم ملا ہے۔ایسا کسی بد نظمی یا بد انتظامی کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی غیر معمولی حکمت چھپی ہوئی ہے۔تمہیں اگر کم ملا ہے اور دوسرے کو زیادہ ملا ہے تو اسی میں تمہاری بھلائی ہے۔دوسرے کودیکھ کر رشک اور حسد کا روگ اپنے دل کو نہ لگاؤ۔ہاں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہو کہ وہ تمہیں بھی اپنے فضل سے نواز دے۔اللہ کا فضل اور زیادہ آمدنی دونوںالگ چیزیں ہیں۔زیادہ آمدنی ہونے کے باوجود انسان پریشان حال رہتا ہے۔اور جس پر اللہ کا فضل ہوتا ہے وہ کم آمدنی میں بھی خوش حال رہتا ہے۔زیادہ آمدنی کے مقابلے میں اللہ کا فضل زیادہ قیمتی چیزہے۔
تم جس دنیا وی نقصان سے بچنے اورفائدہ حاصل کرنے کے لئے اللہ اور رسول کی نافرمانی پر آمادہ ہو گئے ہو، وہ تمہارے بس میں نہیں ہے۔یہ چیز بھی اللہ کے اختیار میں ہے۔اس مضمون کو سمجھانے اور اس پر ایمان کا مظاہرہ کرنے کے لئے یہ آیت نازل کی گئی:’’اگر اللہ تمہیں کسی قسم کا نقصان پہنچائے تو اُس کے سوا کوئی نہیں جوتمہیں اُس نقصان سے بچاسکے، اور اگر وہ تمہیں کسی بھلائی سے نوازنا چاہے تووہ ہر چیز پرقادر ہے۔وہ اپنے بندوں پر کامل اختیار رکھتا ہے۔‘‘(انعام:۱۷)اللہ کی فرماں برداری کر کے نقصان سے بچاجاسکتا ہے اور فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔اُس کی نافرمانی کر کے نہ کوئی فائدہ پہنچے گا اور نہ کسی طرح کے نقصان سے بچنے کی صورت پیدا ہوگی۔
جن لوگوں کو اللہ نے مال و دولت سے نوازا ہے اُن کو قرآن میں جگہ جگہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے اور نادار و ناتواں، بیوہ ،یتیم، بیکس، مجبور، معذور، محتاج اور مسکین انسانوںکی مدد کرنے کی تلقین اور تاکید کی گئی ہے۔اور اس حکم کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اس کا بھی وعدہ کیا ہے کہ جب تم اللہ کی راہ میں مال خرچ کرو گے توتمہارا مال کم نہیں ہوگا بلکہ اللہ تعالیٰ تمہیں اور زیادہ مال و دولت سے نوازے گا۔لیکن بد نصیب سرمایہ دار اور حد سے زیادہ دولت رکھنے والے مسلمان اللہ کی اس بات پر نہ تو یقین رکھتے ہیں اور نہ اس کے مطابق عمل کرتے ہیں۔
تجربہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آدمی جیسے جیسے زیادہ دولت مند بنتا جاتا ہے اُس کا دل اتنا ہی چھوٹا ہوتا جاتا ہے۔وہ محتاج اور مجبور کی مدد کرنے سے کترانے لگتا ہے اور اُنہیں حقارت کی نگاہوں سے دیکھنے لگتا ہے۔ایسا کر کے وہ ایک گناہ تو اللہ کی نافرمانی کا کرتا ہے، دوسرا گناہ بے رحم اور خود غرض ہونے کا کرتا ہے اور تیسرا گناہ فخر و غرور اور گھمنڈ کرنے کا کرتا ہے۔یہ تینوں ایسے گناہ ہیںجن کا کرنے والا سیدھے جہنم میں جائے گا۔نہ اللہ تعالیٰ اُس پر رحم کرے گا نہ بخشش سے نوازے گا ، نہ اُسے رسول اللہﷺ کی شفاعت نصیب ہوگی اور نہ ہی حشر کے میدان میں کوئی اُس کا مددگار ہوگا۔ خود اُس کے اپنے اُس کے دشمن بن جائیں گے۔ان حدیثوں کو پڑھئے:
رسول اللہﷺ نے فرمایا:جس شخص کو اللہ نے مال دیا اور پھر اُس نے اُس کی زکوٰۃ ادا نہیں کی تو قیامت کے روز اُس کا یہی مال ایک ایسے گنجے اژدہے کی صورت میں اُس کے سامنے آئے گا، جس کی آنکھوںکے اورپر دو سیاہ (خوفناک) دھبے ہوں گے۔ پھر وہ اُسے اپنے دونوں جبڑوں سے پکڑے گا اور اُس سے کہے گا میں ہوں تیرا خزانہ ، میں ہوں تیرا مال۔پھر یہ آیت تلاوت کی:’’جن لوگوں کو اللہ نے اپنے فضل سے نوازا ہے اور پھر وہ بخل سے کام لیتے ہیں، وہ اس خیال میں نہ رہیں کہ یہ بخیلی اُن کے لئے اچھی ہے، نہیں یہ اُن کے حق میں نہایت بری ہے۔ جو کچھ وہ کنجوسی سے جمع کر رہے ہیں، وہ قیامت کے روز اُن کے گلے کا طوق بن جائے گا۔‘‘(بخاری ومسلم)حضر ت عائشہؓ کہتی ہیں اُنہوں نے،رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا :جس مال کی زکوٰۃ نہ نکالی جائے اور اُس میں ملی جلی رہے تو وہ مال کو تباہ کر کے چھوڑتی ہے۔(مشکوٰۃ)
’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر صدقہ فرض کیاہے جواُن کے مالداروں سے لیا جائے گا اور اُسے اُن کے ضرورت مندوں کو لوٹایا جائے گا۔(بخاری،مسلم)
زکوٰۃ اور صدقہ کا مقصد مالی لحاط سے پسماندہ لوگوں کی مددکرنی ہے،تاکہ وہ فاقہ کشی کا شکار نہ ہوں اوراپنی بنیادی ضروریات کو پوراکرنے سے محروم نہ رہیں۔قرآن میں دولت مند لوگوں کوزکوٰۃ دینے اوراپنے بچا کر رکھے ہوئے مال میں سے صدقہ کرنے کا حکم ہے۔یوں تو عام طور پر مسلمان دینی تعلیم سے محرومی کے سبب زکوٰۃ اور صدقہ دیتے ہی نہیں ، لیکن جو لوگ زکوٰۃ اور صدقہ دیتے ہیں وہ اُس کے جائزحقداروں تک نہیں پہنچتا ۔
اس دور میںاللہ کے عذاب کو دعوت دینے والا ایک سنگین گناہ کھلے عام ڈھیٹ بن کر کیا جارہا ہے۔مذہب کے ٹھیکیداروں نے امت کو یہ سمجھا رکھا ہے کہ زکوٰۃ اور صدقہ کے حقدار صرف وہ نادار و یتیم طلبا ہیں جو مدرسوں میں پڑھ رہے ہیں اور اس طرح زکوٰۃ و صدقہ کی پوری رقم محتاجوں اور مجبوروں کو ملنے کی جگہ مدرسوں اور تعلیمی اداروں میں جارہی ہے۔پہلے تو لوگ نہیں جانتے تھے لیکن اب بہت سے لوگوں کو یہ معلوم ہو چکا ہے کہ مدرسے کے ذمے دار زکوٰۃ و صدقہ کی اس رقم کو نادار طلبہ پر خرچ کرنے کی جگہ اپنا ذاتی مال سمجھ کر جائیداد بنا رہے ہیں اور اپنا بینک بیلینس بڑھا رہے ہیں۔اب ہر مدرسہ اور تعلیم گاہ ملت کی امانت نہیں رہی بلکہ مدرسہ چلانے والوں کی ذاتی جائیداد بن چکی ہے۔اور اس کی وجہ سے ان کے درمیان آپس میں عداوت، دشمنی،مار پیٹ، مقدمے بازی اور جیل جانے کی تک کی نوبت آر ہی ہے۔مشہورو معروف اداروں میں یہ حادثات ہو چکے ہیں اورمسلم غیر مسلم سب تک یہ بات پہنچ چکی ہے۔اس وجہ سے جتنے ہوش مند اور سمجھ دار لوگ ہیں وہ ان مذہبی ٹھیکے داروں سے محبت اور عقیدت کی جگہ نفرت کرنے لگے ہیں۔
جب جدید تعلیم یافتہ طبقے نے مذہبی مدرسہ والوں کی یہ کھلم کھلا بے ایمانی دیکھی تو اُنہوں نے ایک دوسرا قدم اٹھایا اور وہ بھی شریعت کی نافرمانی کا ہی قدم ہے۔وہ جدید تعلیم کے لئے ادارے اور تنظیم بنا کر زکوٰۃ اور صدقہ کی رقم سے مسلم نوجوانوں کو دنیا کمانے اور عیش و عشرت کی زندگی گزارنے کے لائق بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔کہیں ٹونٹی (20)اورتھرٹی(30) کے نام سے یہ کام ہو رہا ہے ،کہیں انجمن سازی ہو رہی ہے، کہیں کوچنگ کلاسیز چلائے جا رہے ہیں اور انتہا یہ ہے کہ اس کام کے لئے یونیورسٹی کھولی جارہی ہے۔
نادان یہ نہیں سمجھتے کہ جس طرح حکومت اپنے اداروں اور محکموں کو جو رقم جس کام کے لئے دیتی ہے وہ اُن کو اُن ہی کاموں میں خرچ کرنا شرط ہے۔اگر وہ اُن رقموں کو دوسرے کاموں میں خرچ کریں گے تو یہ بے ایمانی، بد دیانتی اور جرم شمار ہوگا اور اُن کو اس کی سزا ملے گی۔ اسی طرح زکوٰۃ و صدقہ بیوہ، یتیم، بیکس اور ناداروں کا حق ہے، اُن کو ملنا چاہئے۔اس کو تعلیمی ادارے، جماعت، امارت ، ادارہ اور انجمن چلانے پر خرچ کرنا زکوٰۃ و صدقہ کی ہیرا پھیری اور چوری کہا جائے گا جو گناہ عظیم ہے۔دینی تعلیم سے انجان اور غافل لوگوں کو نہیں معلوم کہ وہ زکوٰۃ اور صدقہ کی رقم کا غلط استعمال کرکے عظیم گناہ کر رہے ہیں۔زکوٰۃ اور صدقہ صرف نادار مسلمانوں کا حق ہے اور اُنہیں اس طرح ملنا چاہئے کہ معاشی لحاظ سے محتاج اور مجبور انسان تھوڑے دن میں اتنا مالدار بن جائے کہ وہ خود بھی زکوٰۃ اور صدقہ دینے والا بن جائے۔زکوٰۃ اور صدقہ ملت کی معاشی خوش حالی کا پروگرام ہے، مگر دین بیزار وں نے ملت کو بھی زکوٰۃ صدقہ کے نام پر بھکاری بنا دیا اورخود بھی صرف بھکاری نہیں بنے بلکہ لٹیرے اور ڈاکو بن گئے۔
خبر یہ بھی ہے کہ کچھ معروف اور مشہور اداروں کی بے ایمانیوں کا جب پتا چلا تو جو لوگ کروڑوں کی رقم اُن اداروں کو دیتے تھے اُنہوں نے اپنی رقم دینی بند کر دی اور اب ان اداروں کی آمدنی کم ہو گئی ہے۔فسادات کے بعد ریلیف کے نام پر ملت جتنے اداروں کو امدادی رقم دیتی ہے، کاش اُن سے پوچھے کہ متاثرہ علاقوں میں تم نے کتنی رقم کن کن متاثرہ خاندانوں کو دی اور کتنے لوگوں کی بد حالی خوش حالی میں بدل گئی ؟ نہ ملت پوچھتی ہے نہ ان لوگوں کو اس کا خوف ہے کہ اُن کی بے ایمانیوں کا کچا چٹھا اُن پر آفت لائے گا۔اگر ملت جماعت، امارت، ادارے، انجمن اور درس گاہوں کا حساب کتاب دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ آمدنی اورخرچ کا کوئی باضابطہ حساب کتاب ہوتا ہی نہیں ہے۔لوٹ لاؤ کوٹ کھاؤ والا معاملہ ہے۔ ملت کے ایسے تمام مذہبی رہنما جو کروڑوں میں کھیل رہے ہیں وہ سیاست کاروں کی خوشامد اورچاپلوسی میں لگے رہتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ سیاست کار اُن کی بے ایمانیوں سے بہت اچھی طرح واقف ہیں۔ وہ ڈرتے ہیں کہ اگر انکم ٹیکس کا چھپا پڑاتو نہ یہ گھر کے رہیں گے نہ گھاٹ کے۔
حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں آدمی اس بات کی پروا نہیں کرے گا کہ اُس نے جو مال کمایا ہے وہ حلال ہے یا حرام۔ (بخاری) حضرت جابر ؓ روایت کرتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا :حرام کی کمائی سے پلا ہوا جسم جنت میں نہیں جائے گا۔ ہر وہ جسم جو حرام سے پلا ہے اُس کے لئے جہنم کی آگ ہی زیادہ موزوں ہے۔(احمد،دارمی،بیہقی)
حرام کھانے والے کو حرا م خور کہتے ہیں۔زکوٰۃ اور صدقہ کی رقم حرام طریقے سے کھانے والے اور غلط طریقے سے خرچ کرنے والے حرام خور بھی ہیں اورجہنمی بھی۔میری ایسی تحریروں کو پڑھ کر کچھ لوگ کہتے ہیں کہ آپ اتنی تلخ باتیں کیوں کرتے ہیں۔شکر ادا کیجئے کہ میں صرف بولتا اور لکھتا ہی ہوں۔اگر اللہ نے مجھے طاقت اوراختیار دیا ہوتا تو میں ایسے بے ہودے اور بے ایمان لوگوں کوگرفتار کر کے پہلے اُن کا جرم ثابت کرتا اور پھر برسر عام اُن کو کوڑے لگواتا اور عمر قید کی سزا دلواتا، تاکہ آئندہ کوئی مجبوروں اور معذوروں کا حق زکوۃ اور صدقہ کی چوری کی جرأت نہیں کرتا۔
٭٭٭٭٭