رمضان کا مبار ک مہینہ آنے والا ہے۔نبیﷺ نے فرمایا ہے کہ رمضان میں شیطان قید کر دیا جاتا ہے۔مگر اس وقت مسلمانوں کے سماج اور بازاروں کا جو حال ہے اُ س کو دیکھ کر شیطان کے قید ہونے کی بات کا ماننا تھوڑا مشکل معلوم ہوتا ہے۔لوگ تذبذب کی حالت میں ہیں کہ نبی کی بات پر یقین کریں یا تجربے سے جو بات معلوم ہو رہی ہے اُس کو مانیں۔بے علمی اور غفلت سب سے بڑی برائی اور خرابی ہے۔نبیﷺ نے یہ بات شہر مدینہ کے اُس ماحول کے متعلق کہی تھی جہاں ہر طرف شریعت کا راج تھا۔یہ بات ایسے مشرک اور منکرملک کے لئے نہیں کہی تھی جہاں حکومت بھی شیطانوں کے قبضے میں ہے اور ہر طرف شیطانی قانون کا راج چل رہا ہے۔اہل ایمان چاہتے ہوئے بھی مکمل شریعت کے پابند ہو کر زندگی گزار ہی نہیں سکتے ہیں۔نبی ﷺ کے دور میں مسجد نبوی تمام شرعی سرگرمیوں کا مرکز تھی لیکن اس ملک میں مسجد میں صرف نماز پڑھنے کی آزادی ہے اور مسلمان اس آزادی سے بھی فائدہ اٹھانے پر آمادہ نہیں ہیں۔ جانکاروں کا کہنا ہے کہ مسلم آبادی کا صرف دو فیصد مسجد میں نماز پڑھتا ہے باقی ۹۸ فیصد نماز پڑھتا ہی نہیں ہے۔فرمان نبویﷺ ہے کہ جس نے جان بوجھ کر نماز نہیں پڑھی وہ کافر ہو گیا۔یعنی ۹۸فیصدمسلم آبادی مسلمان بننے کو ہی تیار نہیں ہے تو ایسی حالت میں شیطان کے قید ہونے کاکیا سوال پیدا ہوتا ہے۔مگر یہ باتیں اہل علم کے سمجھنے کی ہیں ۔جو لوگ شریعت کے احکام نہیں جانتے یہ باتیں اُن کی سمجھ میں آنے والی نہیں ہیں۔

رابطہ :829814514
(۱) حضرت ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے جھوٹ بولنا اور اُس پر عمل کرنا نہیں چھو ڑا تو اللہ کو کوئی حاجت نہیں کہ ایسا آدمی اپنا کھانا پینا چھوڑ دے ۔(بخاری )مسلمان عام طور پر جھوٹ بولتے ہیں اور جھوٹ بولنے کو گناہ سمجھتے ہی نہیں۔جب ایسے مسلمان اللہ اور اُس کے نبیﷺ کے نزدیک مسلمان ہی نہیں ہیں تو پھر ان کا روزہ کیسے قبول ہوگا۔اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ’’جو لوگ اللہ کے نازل کئے ہوئے قانون کے مطابق زندگی کے فیصلے نہیں کرتے وہ کافر ہیں، ظالم ہیں اور فاسق ہیں۔‘‘(الاعراف: ۴۴، ۴۵،۴۷)اللہ کا نازل کیا ہوا قانون قرآن ہے۔مسلمان قرآن پڑھتے تو ہیں مگر سمجھنے اور عمل کرنے کے لئے نہیں بلکہ ثواب کمانے کے لئے نہیں۔چنانچہ اس کی وجہ سے اللہ کی نگاہ میں یہ مسلمان کافر، ظالم اور فاسق ہیں۔اللہ ایسے لوگوں کا روزہ کیسے قبول کرے گا ؟ اورجو لوگ کافر، ظالم اور فاسق بن کرشیطان کی پیروی خوشی اور رضامندی سے کر رہے ہیں وہ کب چاہیں گے کہ اُن کا حاکم شیطان قید کر دیا جائے۔اللہ ایسے لوگوں کے لئے شیطان کو قید کرتا ہے جو اللہ کے حکم کی پیروی کرتے ہیں۔
(۲) حضرت ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے اس کے پچھلے سارے گناہ معاف کر دئے جاتے ہیں ………(بخاری مسلم)
طالب علم جب امتحان دیتا ہے تو ہر مضمون میں اسے تیس سے ننانوے فیصد تک نمبرملنے کا امکان رہتا ہے۔یہ فیصلہ امتحان دینے والے کی لیاقت اور قابلیت پر ہوتا ہے۔سو فیصد نمبر کسی مضمون میں نہیں ملتا ہے۔ لیکن حساب ایک ایسا مضمون ہے جس میں سو میں سو نمبر مل جاتا ہے۔حدیث میں کہا جارہا ہے کہ جو بندہ حساب کے قاعدے سے نیکی اور گناہ کاجوڑ گھٹاؤ کا حساب کرتے ہوئے یہ جانچتا رہے گا کہ آج کتنی نیکی کمایا اور کتنا گناہ کمایااور گناہ سے بچنے اور زیادہ سے زیادہ نیکی کمانے کی کوشش کرتا رہے گا اُسے حساب کے اچھے طالب علم کی طرح اللہ تعالیٰ سو میں سو نمبر دے گا اور اُس کا ہر طرح کا پچھلا گناہ معاف کر کے جنت کا پروانہ عطا کرے گا۔
(۳) حضرت ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:ابن آدم کا ہر عمل اُس کے لئے کئی گنا بڑھایا جاتا ہے یہاں تک کہ ایک نیکی دس گُنی اور دس گُنی سے سات سو گُنی تک بڑھائی جاتی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزے کا معاملہ اس سے جدا ہے، کیونکہ وہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔(بخاری مسلم)
کہا جارہا ہے کہ ہر نیکی کا اجر ایک گنا، دس گنا اور ستر گنا ملتا ہے۔لیکن روزہ ایسی نیکی ہے جس کے اجر کی کوئی انتہا نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ جس کو جتنا چاہے گا دے دے گا۔چنانچہ جس کے روزے قبول ہو گئے عید کے دن اُس کو جنت کا پروانہ مل جاتا ہے۔آسمان اور زمین پر اعلان ہو جاتا ہے کہ فلاں بندہ جنتی بنا دیا گیا۔لیکن ایسا نصیب اُن لوگوں کا نہیں ہو سکتا ہے جنہیں نہ شریعت کی پروا ہے نہ خدا کا ڈر ہے نہ آخرت کی فکر ہے نہ رسول سے محبت ہے، بس محبت ہے تو دولت سے اور دنیا سے اور عیش وعشرت کی زندگی سے۔ایسے لوگوں کا نصیب جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ ہے۔یہ بات قرآن میں جا بجا لکھی ہوئی ہے۔
(۴) روزہ وہ عمل ہے جس سے صرف روزہ دار کو فائدہ ہوتا ہے دوسرے کو نہیں۔روزہ کسی نہ کسی شکل میں ہر مذہب میں پایا جاتا ہے۔
لیکن رمضان کا روزہ ایسی عبادت ہے جس سے محتاج مجبور اور معذور روزہ داروں کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔نبی ﷺ نے فرمایا ہے جو کسی روزہ دار کو افطار کرائے گا تو ایسے روزہ دار کا ثواب روزہ دار کے ساتھ ساتھ افطار کرانے والے کو بھی ملے گا۔پرانے زمانے میںدولت مند لوگ افطار بنوا کر محلے میں تقسیم کراتے تھے اور اپنے دسترخوان پر بھی روزداروں کو افطار میں شریک کرتے تھے۔یہ ایسا شاندار عمل ہے کہ آج سیاسی لوگ اس سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔اور تجارت کرنے والے مسلمان اپنے کاروبار کے اشتہار کے لئے ایسا کر رہے ہیں۔لیکن معلوم ہونا چاہئے کہ روزہ افطار کرانے کا ثواب اہل ایمان اور متقی مسلمان کو ملے گا۔جو لوگ اسلامی شریعت کے پابند نہیں ہیںاُن کا دنیا میں تو نام ہو جائے گا لیکن اللہ کے یہاں اُن کو کچھ بھی نیکی یا ثواب نہیں ملے گا۔اس لئے کہ اکثر افطار پارٹیاں نیکی کے لئے نہیں اشتہار کے لئے ہوتی ہیں اور اُ ن کی روداد اور تصویر اخباروں میں چھپوائی جاتی ہے۔ یہ نیکی نہیں دکھاوا ہے جو شرک جیسا جرم ہے۔ جو نیک، صاحب تقویٰ، خود دار اور غیرت مند لوگ ہیں وہ ان لوگوں کے افطار میں جانا گواراہی نہیں کرتے ہیں۔
(۵) رمضان کی دوسری عظیم عبادت زکوٰۃ نکال کر اُس کے حقداروں تک پہنچانا ہے’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو جو کچھ مال و متاع ہم نے تم کو بخشا ہے اس میں سے خرچ کرو اس سے پہلے کہ وہ دن آجائے جس میں نہ خرید و فروخت ہوگی نہ دوستی کام آئے گی اور نہ سفارش چلے گی اور ظالم اصل میں وہی ہیں جو کفر کی روش اختیار کرتے ہیں۔‘‘(البقرہ:۲۵۴) یعنی اللہ کی راہ میں مال خرچ نہیں کرنے والے کافر ہیں۔نبی ﷺ رمضان میں عام دنوں سے زیادہ صدقہ کرتے تھے۔اینبیﷺ یہ آپ سے پوچھتے ہیں کیا خرچ کریں ؟ کہـہ دیجئے کہ تم بھلائی کے ارادے سے جو کچھ بھی خرچ کرو اپنے والدین پر ،قرابت مندوں پر ، یتیموں مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو اور تم جو بھلائی بھی کرو گے اللہ تعالیٰ کو اس کا علم ہے۔ ‘‘(البقرہ:۲۱۵)’’اے نبی لوگ پوچھتے ہیں کیا خرچ کریں ؟ کہـہ دیجئے جو تمہاری ضرورت سے زیادہ ہے خرچ کرو۔ اس طرح اللہ تعالیٰ اپنی نشانیاں واضح کرتا ہے شاید کہ تم لوگ غور و فکر کرو۔‘‘(البقرہ:۲۱۹)ان آیتوں میں ایک حکم تو یہ دیا جارہا ہے کہ جو زکوٰۃ یا صدقہ بھی دیا جائے وہ پہلے اپنے والدین پر ،قرابت مندوں پر ، یتیموں مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کیا جائے۔اور دوسرا حکم یہ دیا جارہا ہے کہ ضروری خرچ کے بعد جو مال بچا اُسے خرچ کر دو بچت کے نام بچا کر مت رکھو۔موجودہ حالات میں ایک حد تک مال جمع کر کے رکھنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔لیکن بچت کے نام پر کچھ خرچ ہی نہ کیا جائے یا ایسا خرچ کیا جائے جو اونٹ کے منہ میں زیرہ لگے تو ایسا خرچ اللہ تعالیٰ قبول نہیں کرتا ہے۔
(۶) تم نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک اپنی وہ چیزیں خدا کی راہ میں خرچ نہ کرو جنہیں تم عزیز رکھتے ہو، اور جو کچھ خرچ کروگے اللہ اس سے بے خبر نہ ہوگا۔ (آل عمران:آیت۹۲)نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں’’جس شخص کو اللہ نے مال دیا اور پھر اس نے اس کی زکوٰۃ ادا نہیں کی تو قیامت کے روز اس کا یہی مال ایک ایسے گنجے اژدہے کی صورت میں اس کے سامنے آئے گا، جس کی آنکھوںکے اورپر دو سیاہ (خوفناک) دھبے ہوں گے۔ پھر وہ اسے اپنے دونوں جبڑوں سے پکڑے گا اور اس سے کہے گا میں ہوں تیرا خزانہ ، میں ہوں تیرا مال…… (بخاری،مسلم)
اس آیت میں کہا جارہا ہے کہ جو مال تم کو پیارا ہے ،یعنی جسے تم نے اپنے مستقبل کے لئے جمع کر کے رکھا ہے جب تک اُس کواللہ کی رضا کے لئے خرچ نہیں کرو گے تو تم نیک بن ہی نہیں سکتے ہو۔جو لوگ صاحب نصاب ہیں اُن پر زکوٰۃ فرض ہے ، اور جو مالدار زکوٰۃ نہیں نکالے گا اُس کا قیامت میں کیا حشر ہوگا یہ بھی نبیﷺ نے بتا دیا ہے۔سوچنے اور سمجھنے کی بات ہے کہ جو لوگ اللہ کے محتاج اور معذور بندوںپر اپنی زکوٰۃ خرچ نہیں کرتے وہ تو جہنم میں جانے والے ہیں اُن کا روزہ کیسے قبول ہوگا ؟جو لوگ زکوٰۃ نکالتے تو ہیں مگر اس کوحقداروں تک پہنچانے کا انتظام نہیں کرتے اُن کی زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی ہے ۔وہ اُن لوگوں کو زکوٰۃ دے دیتے ہیں جو حقدار تک نہیں پہنچاتے خود اُس کے مالک بن بیٹھتے ہیں اورخیانت کے مجرم بنتے ہیں۔زکوٰۃ جن لوگوں کو اس لئے دی جاتی ہے کہ وہ حقداروں تک پہنچائیں اُن سے پوچھنا چاہئے کہ آپ نے ہماری زکوٰۃ کن لوگوں کو کتنی دی ا س کا حسا ب دیجئے۔اُن پر آنکھ بند کر کے اعتماد کر لینا بھیانک غلطی ہے اور گناہ بھی۔اگر زکوٰۃ نکالنے والے اپنی زکوٰۃ پوری ذمہ داری کے ساتھ حقداروں تک نہیں پہنچاتے ہیں تو اُن کو جہنم میں جانے سے کوئی نہیں بچا سکتا ہے۔
(۷) اے لوگو جو ایمان لائے ہو ان اہل کتاب کے اکثر علماء اور درویشوں کا حال یہ ہے کہ وہ لوگوں کے مال باطل طریقے سے کھاتے ہیں اور اُنہیں اللہ کی راہ سے روکتے ہیں۔دردناک سزا کی خوش خبری دے دو اُن کو جو سونے اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور اُنہیں خدا کی راہ میں خرچ نہیں خرتے۔ ایک دن آئے گا کہ اسی سونے اور چاندی پر جہنم کی آگ دہکائی جائے گی اور پھر اسی سے اُن لوگوں کی پیشانیوں اور پہلوؤں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا۔یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لئے جمع کیا تھا، لو اب اپنی سمیٹی ہوئی دولت کا مزہ چکھو۔ (توبہ: ۳۴/ ۳۵ )
اس آیت میں کتنی خطرناک ڈرانے والی بتا کہی جا رہی ہے اُن عالموں اور مولانا لوگوں کے لئے جو باطل طریقے سے زکوٰۃ اور صدقے کی رقم لوگوں سے وصول کرتے ہیں لیکن حقدار تک پہنچانے کی جگہ خود ہڑپ کر جاتے ہیں اور یہ سب کے سب کروڑوں کے مالک بنے ہوئے ہیں۔ کوئی ان سے پوچھے کہ حضرت آپ کا کون سا کاروبار یا کارخانہ ہے جس کی آمدنی سے آپ نے اتنی بڑی جائیداد بنا لی اور اتنا بڑ ا بینک بیلنس پیدا کر لیا ؟ آپ تو جماعت، امارت، ادارہ،درسگاہ یامدرسہ چلانے میں لگے ہوئے ہیں۔آپ کے پاس تجارت یا کاروبار کے لئے وقت ہی کہاں بچتا ہے ؟
(۸) حضرت ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان میں قیام کیا اُس کے پچھلے سارے گناہ معاف کر دئے جاتے ہیں ۔(بخاری مسلم)رمضان کی خاص عبادت رو زہ کے علاوہ تراویح کی نماز ہے جو رمضان کے بعد کبھی نہیں ادا کی جا سکتی ہے۔تراویح رمضان کا چاند دیکھ کر شروع ہو جاتی ہے اورعید کا چاند دیکھ کر ختم ہو جاتی ہے۔ یعنی رمضان میں مہینے بھر روزہ بھی رکھنا ہے اور تراویح بھی پڑھنی ہے۔لیکن دنیا پرست مسلمانوں اور دین کے ٹھیکے داروں نے یہاں بھی ڈنڈی ماری شروع کر دی ہے۔اب شاید ہی کسی مسجد میں پورے رمضان میں پورا قرآن پڑھا اور سنایا جاتا ہے۔تراویح پڑھانے والا حافظ عبادت کی غرض سے قرآن نہیں سناتا ہے ۔ وہ اس کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ دولت کمانا چاہتا ہے۔دوہ۱۵دن ایک مسجد اور۱۵ دن دوسری مسجد میںتراویح پڑھانا چاہتا ہے تاکہ دوہری آمدنی ہو سکے۔اب تو ڈنڈی ماری کی انتہا یہ ہو گئی کہ چھ دن میں ہی اسے نپٹا دیا جاتا ہے۔اب تراویح کی نماز عبادت کے ذوق و شوق کے ساتھ نہیں پڑھی جاتی ہے بلکہ یہ ایک ایسا بوجھ ہے جسے جیسے تیسے کسی طرح نپٹا دیاجاتا ہے۔ ایسے لوگوں کو نہیں معلوم کہ وہ جو اللہ کو دھوکہ دے رہے ہیں تو اللہ کو دھوکہ نہیں دے رہے ہیں بلکہ خود اپنی تباہی اوربربادی کا سامان کر رہے ہیں۔حشر کے دن اللہ تعالیٰ اُن کی ایسی نمازوں کو اُن کے منہ پر پھینک دے گااور وہ جہنم میں ڈال دئے جائیں گے۔دنیا کے تجربہ کار لوگ بھی تولنے اور ناپنے کی بے ایمانی گوارا نہیں کرتے تو پھر اللہ تعالیٰ ایسے ڈنڈی مار نمازی اور روزہ دارکو کیسے بخش دے گا۔
اوپر بیان کی گئی رمضان کی تمام عبادتیں مکمل ذوق و شوق ،پوری توجہ ،اللہ کے خوف اور اُس سے محبت کے ساتھ اللہ کی رضا کے لئے کرنی چاہئے۔مجبوری کا بوجھ سمجھ کر جیسے تیسے نپٹانا گناہ عظیم ہے۔لیکن موجودہ مسلمانوںکا مزاج اتنا دنیا دار، دنیا پرست، دولت کا پجاری،عیش و عشرت کا عادی،نفس اور شوق کا غلام بن چکا ہے کہ اسے اللہ کا ڈر ہے نہ رسول سے محبت۔ نہ آخرت کی فکر ہے نہ شریعت کی پروا۔اس کا دین و ایمان صرف دولت کمانا اور دنیا میں عیش و عشرت کی زندگی گزار ناہے ۔نبی ﷺ کا فرمان ہے ’’جو اپنی دنیا سنوارتا ہے وہ لازمی طور پر اپنی آخرت برباد کر لیتا ہے اور جو اپنی آخرت سنوارتا ہے وہ(دنیا داروں کی نگاہوں میں)اپنی دنیا برباد کر لیتا ہے۔مطلب یہ کہ دونوں ہاتھوں میں لڈو نہیں ہو سکتے۔مسلمان یا تو خدا کا فرماں برداربنے یا شیطان کا غلام بنے۔شیطان تو اس پر راضی ہو جائے گا کہ میری بھی مانو خدا کی بھی مانو، لیکن اللہ اس شرک اور ساجھے داری پر راضی نہیں ہوگا۔وہ پورے خلوص، ایمان داری اوردیانت داری کے ساتھ بندے کی بندگی چاہتا ہے اور یہ اُس کا واجب حق بھی ہے کیونکہ بندے کی تمام ضرورت وہی پوری کررہا ہے۔شیطان کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہے تو پھر شیطان کی فرماں برداری کس بنیاد پر اور کیوں کی جائے گی ؟
٭٭٭٭